جناب من السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میراسوال یہ ہے کہ کیا دعوتی منصوبوں کے سرمایے میں زکوٰۃ کا مال صرف کرنا جائز ہے ، جیساکہ حفظِ قرآن یا کتابوں اور کیسٹوں وغیرہ کی نشرو اشاعت کے مراکز میں؟
صرف الزكاة في الدعوة إلى الله
جناب من السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میراسوال یہ ہے کہ کیا دعوتی منصوبوں کے سرمایے میں زکوٰۃ کا مال صرف کرنا جائز ہے ، جیساکہ حفظِ قرآن یا کتابوں اور کیسٹوں وغیرہ کی نشرو اشاعت کے مراکز میں؟
صرف الزكاة في الدعوة إلى الله
الجواب
حمد وثناء کے بعد۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
جی ہاں ! یہ جائز ہے ، خاص کر جب ان دعوتی مراکز کا کوئی اور ذریعہ اور وسیلہ نہ ہو ، کہ اس صورت میں یہ بھی آیت میں اللہ کی راہ میں مذکورہ زکوٰۃ کے مستحقین کے تحت آجاتے ہیں ، اس لئے کہ علماء کے ایک قول کے مطابق اس مصرف سے مقصود بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے ، کیونکہ جہاد کی دوقسمیں ہیں: ایک شمشیر وسناں کے ساتھ اور دوم علم وبیاں کے ساتھ ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺکوحکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اور اس قرآن کے ذریعہ ان کافروں کے ساتھ بڑا جہاد کر‘‘ [الفرقان: ۵۲]۔ یہاں تمام مفسرین کے ہاں اس سے مراد قرآن ہے کیونکہ یہ آیت بالاتفاق مکی ہے جو کہ جہاد بالسیف کی فرضیت سے پہلے نازل ہوئی ہے ، تو اللہ تعالیٰ نے یہاں قرآن کی نشرواشاعت اور دعوت وتبلیغ کو جہادِ اکبر کا نام دیا ہے ، مناسب یہی ہے کہ زکوٰۃ کا مال ان کے وصول کنندہ مستحقین کو ملے کہ یہی اصل زکوٰۃ ہے۔
آپ کا بھائی/
أ.د/ خالد المصلح
22 /9/ 1428هـ