زکوٰۃ میں پیسوں کا کیا نصاب ہے؟ اور والدین کو زکوٰۃ دینے کا کیا حکم ہے؟
ما هو نصاب النقود في الزكاة؟ وما حكم إعطائها للوالدين؟
زکوٰۃ میں پیسوں کا کیا نصاب ہے؟ اور والدین کو زکوٰۃ دینے کا کیا حکم ہے؟
ما هو نصاب النقود في الزكاة؟ وما حكم إعطائها للوالدين؟
الجواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
اہل علم کے صحیح قول کے مطابق جب بیٹے کے اپنے حالات اس قدر تنگ ہوں کہ وہ بمشکل صرف اپنے ہی اخراجات اٹھا سکتا ہو تو ایسی حالت میں بیٹے پر باپ کا نفقہ واجب نہیں ہے ، لیکن اس کے پاس زکوٰۃ ہے اور اس کا باپ کمزور وخستہ حال ہے اور وہ دوسروں کی معاونت کا ضرورت مند ہے اور وہ زکوٰۃ کا مستحق بھی ہے تو اس حالت میں ہم کہتے ہیں کہ دوسروں کو زکوٰۃ دینے کے بجائے اپنے والد کو زکوٰۃ دینا أولیٰ و أفضل ہے ، اس لئے کہ وہ حسنِ سلوک کا زیادہ مستحق ہے ، اگر وہ یہ کہے کہ یہ تو میرا باپ ہے اور اس پر خرچ کرنا مجھ پر واجب ہے تو اس کے بارے میں ہم یہ کہیں گے کہ آپ اس حالت میں خرچ نہیں کرسکتے ، پس اگر آپ خرچ نہیں کرسکتے اور آپ کے پاس زکوٰۃ ہے تو پھر اپنے باپ کو ہی دے دیں ، پس دونوں شرطوں کو دیکھنا ضروری ہے ۔
رہی بات پیسوں میں زکوٰۃ کے نصاب کی تو اس کو بعض علماء چاندی کے حساب سے شمار کرتے ہیں اور بعض علماء اس کو سونے کے حساب سے شمار کرتے ہیں ، اور ان دونوں اقوال میں أقرب الی الصواب قول یہی ہے کہ اس کو سونے کے حساب سے شمارکیا جائے اور یہ تقریباََ پچاسی گرام سونا بنتا ہے ، اگر آپ کے پاس موجودہ مال پچاسی گرام سونے تک پہنچ جائے تو اس میں زکوٰۃ واجب ہے پھر چاہے وہ دینارو ریال ہوں یا پھر چاہے ڈالر و پاؤنڈ ہوں (لیکن یہ زکوٰۃ کرنسی کے اختلاف کے اعتبار سے ہوگی)۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ آلیت کی پہچان کیسے کرے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ سونار کے پاس جائے اس سے گرام کی قیمت کے بارے میں معلومات کرے ، اور پھر اس کو پچاسی سے ضرب دے ، اگر مثال کے طور پر ان پچاسی گرام کی قیمت ہزار ریال بنتی ہو تو اس حساب سے اگر آپکے پاس ہزار ریال ہوں اور ان پر پورا سال گزر جائے تو آپ پر اس کی زکوٰۃ واجب ہے