مساجد کی مرمت سازی میں زکوٰۃ کے مال لگانے کا کیا حکم ہے؟
ما حكم صرف الزكاة في مصالح المساجد؟
مساجد کی مرمت سازی میں زکوٰۃ کے مال لگانے کا کیا حکم ہے؟
ما حكم صرف الزكاة في مصالح المساجد؟
الجواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن کریم میں زکوٰۃ کے مصارف کو بڑی صراحت و وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﴿بے شک زکوٰۃ فقراء ، مساکین ، زکوٰۃ پر کام کرنے والوں ، نئے اسلام لانے والوں کی دلجوئی ، غلاموں ، قرضداروں ، اللہ کی راہ میں چلنے والے مجاہدینِ اسلام، اور راہ گیر مسافروں کے لئے ہے﴾ {التوبۃ: ۶۰} یہ زکوٰۃ کے آٹھ مصارف ہیں ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے﴾ یعنی یہ اللہ کی طرف سے فرض کردہ امر ہے جس سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے ، اور نہ ہی ان مصارف کے علاوہ کوئی اور مصرف چاہنا جائز ہے ۔
باقی رہی بات مساجد کی مرمت سازی میں زکوٰۃ کے مال لگانے کی تو اس کو اللہ تعالیٰ نے ان آٹھ مصارف میں سے ذکر نہیں کیا، اس لئے کہ جن کو زکوٰۃ دینا جائز ہے وہ آٹھ مصارف یہ ہیں: (۱) فقراء (۲)مساکین (۳)زکوٰۃ پر کام کرنے والے کو (۴)بطور دلجوئی کے نئے اسلام لانے والوں کو (۵)قرضداروں کو (۶)غلاموں کو (۷) اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کو، جس کی دوقسمیں ہیں : علم وبیاں کے ساتھ جہاد اور شمشیر وسناں کے ساتھ جہاد (۸) اور اس راہگیر مسافر کو جس کے پاس زاد راہ ختم ہوچکا ہو اور اسے اتنے مال کی ضرورت ہو جو اسے اپنے وطن پہنچادے ۔
اب مساجد کا ذکر ان آٹھ مصارف میں سے کہیں بھی نہیں ہے ، اسی لئے متقدمین اورمتاخرین میں سے جمہورعلماء کے نزدیک مساجد کی مرمت سازی یا تعمیرکاری میں زکوٰۃ کا مال صرف کرنا جائز نہیں ہے ، اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی منشاء و چاہت کے خلاف زکوٰۃ کا مال صرف کرنا ہے ، اور اللہ کی منشاء و چاہت وہی آٹھ مصارف ہیں جومذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ذکر کئے گئے ہیں ۔
لہٰذا مساجد کی مرمت سازی میں مالِ زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں ہے البتہ مساجد کی مرمت سازی وغیرہ کے لئے وقف کردہ اموال ، وصیت کئے گئے اموال، اور مسلمانوں کی طرف سے کئے گئے صدقات وغیرہ سے جائز ہے