ایسے رشتہ داروں کی وجہ سے زکوٰۃ کا کیا حکم ہے جن کو آپ کافی عرصے بعد دیکھتے ہیں؟ اورکیا شرعی سال کا شمار قمری مہینوں کے اعتبارسے ہوگا یا شمسی مہینوں کے اعتبار سے؟
تأخير الزكاة لقرابة لن تراهم إلا بعد مدة
ایسے رشتہ داروں کی وجہ سے زکوٰۃ کا کیا حکم ہے جن کو آپ کافی عرصے بعد دیکھتے ہیں؟ اورکیا شرعی سال کا شمار قمری مہینوں کے اعتبارسے ہوگا یا شمسی مہینوں کے اعتبار سے؟
تأخير الزكاة لقرابة لن تراهم إلا بعد مدة
الجواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:
سوال کرنے والی صاحبہ کو اس بات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ زکوٰۃ کا تعلق شمسی مہینوں سے نہیں بلکہ قمری مہینوں سے ہوتا ہے ، اس لئے آپ اپنی زکوٰۃ کا حساب قمری مہینوں سے لگایا کریں کیونکہ قمری مہینے ہی زکوٰۃ کے حساب میں اصل ہیں ، اس لئے کہ شمسی مہینہ قمری مہینے سے کافی لمبا ہوتا ہے ، کہ شمسی مہینہ ہر سال میں تیرہ دن یا اس سے کم وبیش بڑھتا رہتا ہے ، لہٰذا زکوٰۃ کا حساب بالاجماع تمام اہل علم کے نزدیک قمری مہینوں سے ہے نہ کہ شمسی مہینوں سے ،اس لئے میں اپنے تمام بھائیوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی زکوٰۃ کے حساب میں اس طرف اپنی توجہ مرکوز کریں۔
باقی رہا زکوٰۃ کے اخراج کا مسئلہ: تو زکوٰۃ کے اخراج میں اصل یہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿کٹائی کے دن ہی (غریب کو) کو اس کا حق دو﴾ {الانعام:۱۴۰} اور دوسری بات یہ کہ جب زکوٰۃ واجب ہو اسی وقت زکوٰۃ ادا کرے ، یہی اصل قاعدہ ہے ، لیکن اگر کسی ضرورت اور مصلحت کے پیشِ نظر زکوٰۃ کو آگے پیچھے کیا جائے تو یہ بھی جائز ہے ، لیکن اس میں بھی سوال کرنے والی صاحبہ کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک تحریر نامہ لکھے جس میں وہ اپنے اور زکوٰۃ کے مال کو علیحدہ علیحدہ لکھ لے ، اس لئے کہ اگر کہیں سے کوئی رکاوٹ آجائے یا کوئی چیز آڑے آجائے تو وہ اپنا ذمہ بری کرسکے ، اس لئے کہ انسان کو بعض اوقات موت یا بیماری وغیرہ اچانک لاحق ہوجاتے ہیں ، اسی لئے اگر زکوٰۃ کو اس کے وجوب کے وقت ہی اداکی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے