حمد و ثنا ء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:
تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس زنا پر حد کا حکم جاری ہوتا ہے تو یہ وہ زنا ہے جس میں عضوِ تناسل کا ادخال ہو جائے ، باقی اس کے علاوہ جو لطف اندوزی ہوتی ہے حرام کردہ زنا ہے ، جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺکا ارشاد گرامی ہے: ’’آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ، کانوں کا زنا سننا ہے ، زبان کا زنا بولنا ہے ، ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے ، اور پاؤں کا زنا غلط جگہوں کی طرف جانا ہے‘‘۔ اس حدیث کو امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے اور اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر عضو کا زنا ہے جس سے گریز و اجتناب ضروری ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے زنا کے سارے راستے مٹاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ﴿اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکواس لئے کہ وہ بہت گندا اور برا راستہ ہے﴾ (الاسراء: ۳۲) لیکن اس سے حد ثابت نہیں ہوتی ۔
جہاں تک حد کی بات ہے تو یہ ایک دنیاوی سزا ہے اس لئے جو ہم نے ذکر کیا ہے یہ اس پر ایک زائد امر ہے پس اس سے حد ثابت نہیں ہوتی مگر چند شرائط کے ساتھ ، اور انہی شرائط میں سے ایک عضوِ تناسل کے سر کو بھی داخل کرنا ہے جو کہ ختنہ کی جگہ سے اوپر اوپر ہوتا ہے ۔
باقی آپ نے جس کے بارے میں پوچھا ہے کہ اگر حائل کے ساتھ لطف اندوزی حاصل کی جائے تو اس پر تو سب کا اتفاق ہے اگر وہ حائل اتنا باریک ہو کہ وہ مانع نہ ہو اور جس سے شرمگاہ کی گرمی اور لذت حاصل ہو تو اسکا کوئی اثر نہیں ، فقہاء کا اختلاف اس صورت میں ہے جب وہ حائل موٹا ہو تو بعض علماء نے اس کو شبہ میں سے شمار کیا ہے جو حد سے مانع ہے ۔
باقی آپ نے شیخ ابن عثیمین ؒ سے سنا ہے تو یہ وجوبِ غسل سے متعلق ہے ، اس لئے کہ غسل یا تو انزال سے واجب ہوتا ہے یا شرمگاہوں کے ملنے سے ، اور یہاں پہ حائل کی وجہ سے نہ تو انزال ہوا ہے اور نہ ہی شرمگاہ ملے ہیں ، اس لئے علماء کا اس صورت میں وجوبِ غسل کے بارے میں اختلاف ہے ، اور رہا حد کا مسئلہ تو اس کا تعلق عضوِ تناسل کے ادخال کے ساتھ ہے نہ کہ شرمگاہوں کے ملنے کے ساتھ ، لہٰذا دونوں مسئلوں میں لزوم نہ کریں