حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
حقیقت میں یہ مسئلہ مشتبہ فیہا ہے ، اور حصص (شیئرز) خریدنے کے معاملہ کے بارے یہ کہہ دینا کہ یہ حرام صرف اس وجہ سے ہے کہ اس میں کچھ حرام معاملات شامل ہے یہ ٹھیک نہیں اور محض ایک اندازہ ہے۔ کیونکہ معاملہ یا حصص کو تب ہی حرام کہا جا سکتا ہے جب اصل سرگرمی ہی جس پر سارے کام کا دار ومدار ہو اورجس پر حصص خریدنے کا معاملہ ہو ہو وہ حرام ہو۔
اور اگر اصل سرگرمی جائز اعمال میں سے ہو چاہے کوئی سروسز ہو یا کوئی سامان وغیرہ کی خرید وفروخت ہو یا پھر جائداد کی خرید و فروخت ہو ۔اور اسکے ساتھ بعد میں کوئی سودی قرضہ یا چیک جوڑے ہیں ۔ اس وقت اصل کام میں یہ اضافی چیزیں اگر بڑے مقدار میں ہو تو ان معاملات کو خرا ب کرسکتی ہے۔ اور اگر تھوڑے مقدار میں ہو تو پھر یہ معاملہ اسکے اصل حکم سے خارج نہیں ہوگا۔
اور ہم سب کو دعوت دیتے ہیں کے اپنے معاملات کو ہر قسم کے شبہات سے پاک رکھے خاص طور پر وہ اشخاص جو اوروں کے پیسوں سے حصص کے معاملات کرتے ہیں ۔ تو ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کے وہ خود بھی اس سے چٹکارہ پانے کی کوشش کرے ،اور لوگوں سے بھی کرائے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ جتنا ہوسکے اپنے مال کو بقدر اشتباہات پاک رکھے۔
اور اگر کسے شخص نے حصص کاصحیح معاملہ کیا اور اسکو بعد میں اس کی خرابی اور فساد کا علم ہوا تو جو منافع لیا جا چکا ہیں وہ اسی کا ہے ۔ کیونکہ قاعدہ ہے کہ ہر وہ شخص جو اس سوچ کے ساتھ معاملہ کرے کہ یہ معاملہ بالکل صحیح ہے اور اسے اس معاملہ کی حرمت کا علم نہ ہو تو اس معاملہ کے جتنے منافع ہونگے یہ شخص ان سب کا مستحق ہوگا۔ اور اس بات کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: (پہلے جو کچھ ہوچکا اللہ نے اسے معاف کرد یا) [المائدہ: ۹۵]۔ پس اللہ تعالی نے گزرے ربا اور سود پر لوگو ں کا مواخذہ نہیں کیا اور معاف فرمایا۔ لیکن جب حرمت کا علم ہوجائے کہ معاملہ مکمل طور پر ناجائز ہے تو پھر حرام کام سے رکھنا چاہیے ۔
اور اگر معاملہ میں کوئی شک و شبہ واقع ہو تو میری رائے ہے کہ جو شخص شبہات سے دور رہنا چاہتا ہے تو وہ معاملہ ترک کردے ۔نعما ن بن بشیر ؓ کی حدیث کی روسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((حلال سارا کا سارا بالکل واضح ہے اور حرام بھی سارا کا سارا بالکل واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں ، پس جو شخص ان مشتبہات سے بچ گیا تو وہ بری ہوگیا اپنے دین کے لیے یعنی کہ اپنے رب کے معاملہ میں۔ اور اپنے عزت کے لیے ، یعنی کہ لوگوں کے معاملہ میں)) ۔ پس اگر یہ شخص چاہتا ہو کہ اس سے چٹکارہ پالے اس کو فروخت کرکے یا کسی کو ہدیہ کرکے ، تو اسکے لیے جائز ہے ۔ اور اگر وہ شخص یہ معاملہ باقی رکھنا چاہتا ہو تو میں حرام ہونے کا فتوی نہیں دیتا ۔لیکن اگر حرمت کی مقدار کم ہو تو بہتر ہے کے اتنی مقدار کے برابر معاملہ کو پاک کرے۔ واللہ اعلم
آپ کا بھائی/
أ. د.خالد المصلح
5 / 3 / 1434هـ