محترم جناب صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، کیا سودی منافع لینا جائز ہے؟ اور ان منافع کو فقراء پر خرچ کرنا کیسا ہے؟ یا پھر ان منافع کو بنک میں ہی رہنے دیں؟
التصرُّف في المال الربوي
محترم جناب صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، کیا سودی منافع لینا جائز ہے؟ اور ان منافع کو فقراء پر خرچ کرنا کیسا ہے؟ یا پھر ان منافع کو بنک میں ہی رہنے دیں؟
التصرُّف في المال الربوي
الجواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
اصل تو یہ ہے کہ جتنا ہوسکے اتنا سودی بنکوں سے دور رہیں ، لیکن اگر کوئی انسان بوجہ مجبوری سودی بنک میں مال رکھ لے اور بنک ا سکو مال جمع کرنے کے عوض سودی منافع دے ،تو اس مال میں تصرف کرنے کے متعلق علماء کے دو قول ہیں:
۱۔ اس مال کوبنک میں چھوڑنا واجب ہے اور اسکا لینا جائز نہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالی کی آیت ربا کے بارے میں: (تو تمہارا اصل سرمایہ تمہارا حق ہے ۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ البقرہ: ۲۷۹)۔ اور اس قول کے مطابق ان منافع کو لینا جائز نہیں اور نہ انکو قبول کرنا۔
۲۔ ان سودی منافع کا لینا جائز ہے ، لیکن لینے والے پر واجب ہے کے ان منافع کو مسلمانوں کی ضروریات اور خیر کے کاموں میں خرچ کرے ۔ اور اس قول کا سہارا (دلیل) یہ ہے کہ ان سودی منافع کے لینے میں کوئی ظلم نہیں ہے ۔ کیونکہ بنک یہ منافع پوری رضامندی کے ساتھ دیتا ہے ۔ اور چونکہ یہ منافع اس شخص کے اکاونٹ میں جمع ہوچکے ہیں ، جسکی وجہ سے یہ منافع اس شخص کی ملک میں داخل ہوگئیں ۔ تو اب ان منافع کو اپنے اکاونٹ میں چھوڑ دینے سے اس کے ملک سے خارج نہیں ہوتے۔
ظاہر یہی ہے کہ یہ قول صحت کے زیادہ قریب ہے ، پس صاحبِ مال کے لیے یہ لازم ہے کہ ابتداء ہی سے بنک کے ساتھ بغیر منافع کے مال جمع کرنے کا معاہدہ کرے ۔ لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو اور سودی منافع کے ساتھ مال جمع کرنے پر مجبور ہوجائے تو پھر اس پر واجب کہ ان منافع سے جان چھڑائے۔
آپ کا بھائی/
أ.د.خالد المصلح
13 /9 /1427هـ