محترم شیخ اگرمیں ایک دکان یا لانڈری (کپڑے دھونے کی دکان) کھولوں اور پھر مزدوروں کو دو ہزار کرایہ کے بدلے دے دوں، تو کیا یہ جائز ہے ؟
تعاقد الكفيل مع عماله بأجر
محترم شیخ اگرمیں ایک دکان یا لانڈری (کپڑے دھونے کی دکان) کھولوں اور پھر مزدوروں کو دو ہزار کرایہ کے بدلے دے دوں، تو کیا یہ جائز ہے ؟
تعاقد الكفيل مع عماله بأجر
الجواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
درحقیقت یہ کفیل اور جس کی کفالت کی جاری ہی ہے دونوں کے درمیان ایک قسم کا معاملہ ہے اور یہ عقد اذعان (مجبور کرنا) کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے، جن میں جس میں کفیل مکفول (جس کی کفالت کی جا رہی ہے) کچھ ایسی شروط پر مجبور کرتا ہے جن پر ممکن ہے کہ مکفول راضی بھی نہ ہو، اور ممکن ہے اس معاملہ میں کسی پر زیادتی ہو رہی ہو اور اسکا حق بھی مارا جا رہا ہو ۔ تو میرے نزدیک تو اس طرح کے معاملات کو ترک کرنے میں ہی سلامتی ہے، خاص طور پر اگر جس ملک میں یہ معاملہ ہو رہا ہو اس ملک کی حکومت ہی اس معاملہ کو منع کرتی ہو۔
کچھ لوگ تو مزدور کو ماہانہ تنخواہ کے نام پر لے آتے ہیں، پھر اسے کہتے ہیں: کوئی تنخواہ نہیں ہے ۔ یا تو اس صورت (جو اوپر ذکر ہوگئی) کے مطابق کام کر نہیں تو تمہیں واپس اپنے ملک بیج دوں گا ۔ اس معاملہ میں وعدہ خلافی ہے، جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: "اے ایمان والوں معاہدوں کو پورا کرو" {المائدۃ: ۱}۔
لہذا مالدار لوگوں پر لازم ہے کہ اللہ سے ڈرے ، اور ایسا راستہ اختیار کریں جس میں معاشرہ کے حقوق محفوظ ہو، کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں میں نے اس لیے یہ طریقہ اختیار کیا کیونکہ یہ مزدور لوگ میرا مال کھا جاتے ہیں اور مجھے میرا حق نہیں ادا کرتے ۔ تو یہ بات ٹھیک نہیں کیونکہ ظلم کو ظلم سے دور نہیں کیا جاتا