حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:
وہ جتنی قیمت میں فروخت کرنا چاہے اسے مکمل اختیار ہے کیونکہ تجارتی لین دین میں پرافٹ کے اعتبار سے کوئی حد متعین نہیں ہے، البتہ اگر شہر میں کوئی قیمت رائج ہو جس کو فقہاء کی زبان میں آئیڈیل پرائس کہتے ہیں تو پھر اس آئیڈیل پرائس سے تجاوز کرنا جائز نہیں ہے کہ یہ ایک فراڈ اور دھوکہ ہے، مثال کے طور پر ایک کپ دس ریال میں بیچا جاتا ہے اور تمام دکانوں میں اس کی یہی ایک قیمت ہے لیکن آپ جب کسی دوسری دکان میں جاتے ہیں تو وہ دکاندار آپ کو گیارہ ریال کا بیچتا ہے اب ایک ریال کی ادائیگی لوگوں کے لئے مشکل نہیں ہے اور لوگ اس کی پرواہ بھی نہیں کرتے لیکن پھر بھی یہ لوگوں کے ساتھ ایک دھوکہ ہے، لیکن اگر وہ آپ کو بیس ریال کا بیچتا ہے جبکہ وہ دس ریال کا ملتا ہے تو آپ اس سے کہتے ہیں کہ بھائی جان آپ نے مجھے دھوکہ دیا ہے یعنی بازار میں جب یہ دس ریال کا بکتا ہے تو آپ مجھے کس طرح بیس ریال میں بیچتے ہیں ؟ اب چونکہ یہ ایک فراڈ ہے اس لئے اس صورت میں یہاں جب تک یہ صراحت نہ کی جائے کہ بازار میں یہ اتنے کا بیچا جاتا ہے تو اس پہ پرافٹ لینا جائز نہیں ہے ۔
یہاں پرافٹ کی مقدار کے مسئلہ میں ایک اہم عنصر بیع کی جگہ بھی ہے ، اس لئے کہ فٹ پاتھ پر بیچنے والا شخص کسی دکان اور تجارتی منڈی میں بیچنے والے شخص کی طرح نہیں ہے اور یقینا اس کی آمدنی ہے اور اس کی کوئی لاگت و قیمت نہیں ہے، اور آج کل یہ رواج بھی چل پڑا ہے کہ ایک شخص اپنے کسی رشتہ دار کو قیمت پر بیچ دیتا ہے، اس شخص کے برخلاف جس کی دکان اعلی تجارتی جگہوں پر ہوتی ہے