حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:
محرمات میں شرعی قاعدہ یہ ہے کہ حرام کردہ امور کو صرف ضرورتیں ہی حلال کرتی ہیں ، یہی حرام کردہ امور میں قاعدۂ کلّیہ ہے ۔
بعض علماء فرماتے ہیں کہ ان محرمات میں سے سُود مستثنیٰ ہے اس لئے کہ اس میں کوئی ضرورت نہیں، اس لئے ان کا مشہور قول ہے (لا ضرورۃ فی الربا) ’’سُود میں کوئی ضرورت نہیں‘‘ اس لئے سُود پر قرضہ لینا جائز نہیں ہے۔
لیکن فقہائے کرام کے کلام میں غوروخوض کرتے ہوئے مجھے دوسرے فقہاء کی ایک جماعت کا قول ملا جس میں انہوں نے بعض صورتوں میں ضرورت کے پیشِ نظر سُود دینا جائز قرار دیا ہے، مثال کے طور پر اگر بھوک سے میں جاں بہ لب ہوں اور کوئی بھی میری ضرورت پوری کرنے میں میری معاونت نہیں کر رہا پھر مجھے ایک مسلمان ملا جو مجھے سُود پر قرضہ دینے کے لئے راضی ہے تو ایسے سنگین حالات میں فقہائے کرام نے سُود پر قرضہ لینے کو جائز قراردیا ہے ۔ اور یہی اصل ضرورت ہے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ سُود دوسرے احکامات سے منفرد نہیں ہے لیکن میں اس مسئلہ کی طرف اپنے بھائیوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ سُود بوقتِ ضرورت کب جائز ہے ، اور وہ کس قسم کی ضرورت ہے جو محرمات کو حلال کرتی ہے؟ اس لئے کہ لوگوں کے ہاں وسعت بہت پائی جاتی ہے، اب شیخ محمد لوگ حاجات کو ضرورتوں کا نام دیتے ہیں ، یعنی معمولی معمولی حاجات کو ضرورتوں کا نام دے دیتے ہیں ، جبکہ حقیقت میں وہ کوئی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ تو محض ایک حاجت ہوتی ہے ، اس لئے حاجت اور ضرورت کے درمیان فرق ہونا چاہئے ، پھر اگر مسئلہ کے ساتھ ضرورت کا تعلق ہو تو اس کی اباحت کے لئے دو شرطوں کا ہونا ضروری ہے:
پہلی شرط : یہ ہے کہ اس حرام کردہ امر کے ساتھ ضرورت پوری ہوجائے اورانشاء اللہ میں اس کی مثال دوں گا تاکہ بات واضح ہوجائے ۔
دوسری شرط : یہ ہے کہ ضرورت پوری کرنے کے لئے اس حرام کردہ امر کا ارتکاب متعین ہو جائے ، مثال کے طور پر : کسی کے حلق میں لقمہ پھنس گیا جس سے وہ موت کے قریب ہوا اب یہاں شراب کے علاوہ کوئی چیز نہیں تو اب ہمارے نزدیک اسی شراب سے اس ضرورت کو پورا کیا جائے اس لئے کہ اس وقت ہمارے پاس کوئی اور مشروب نہیں ہے۔
سوال: کیا ضرورت اس سے پوری ہو جائے گی ، یعنی کیا سیال چیز اس لقمہ کو جو اس شخص کے حلق میں پھنس گیا تھا پیٹ تک لے جائے گی؟
جواب: جی ہاں ، سیال چیزوں کی یہی خاصیت ہے کہ وہ اس ضرورت کو پورا کرتی ہیں ، اس سے یہاں دو شرطیں پوری ہوئی جس کی وجہ سے شراب پینا جائز ہوا۔
میں نے بات لمبی کردی لیکن ایک اور مثال دینا چاہتاطہوں وہ یہ کہ اگر کوئی شخص لق و دق صحرا میں ہو اور اسے سخت پیاس لگی ہو اور اس کے پاس سوائے شراب کے کچھ نہیں اور وہ پیاس و تشنگی کے مارے جاں بہ لب ہے تو کیا وہ شراب پی کر اپنی جان بچا سکتا ہے؟
جواب: نہیں ، ایسا کیوں ہے؟ وہ اس لئے کہ یہاں شراب پینے سے ضرورت پوری نہیں ہوگی کیونکہ اہل علم اور ڈاکٹروں کے نزدیک شراب جگر میں گرمی پیدا کرکے پیاس بجھانے کے بجائے مزید بھڑکاتی ہے اس لئے جب یہاں ضرورت پوری نہیں ہوتی تو شراب پینا بھی ناجائز ہے