حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:
آپ کے سوال کے بارے میں ہمیں جو سمجھ آیا ہے اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ آپ کے لئے اس کو اپنے مال میں سے کچھ بھی واجب نہیں ہے، اس لئے کہ جس مال پر عقد تام ہو ا تھا اس کو اس نے پورا پورا وصول کیا تھا اور اس پر راضی بھی ہوا تھا اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اللہ نے خریدو فروخت کو حلال قرار دیا ہے﴾ {البقرہ: ۲۷۵}۔
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ﴿اے ایمان والو! آپس میں اپنے اموال باطل طریقہ سے نہ کھایا کرو الا یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے بطورتجارت ہو﴾ {النساء: ۲۹} اور یہاں آپ کے مسئلہ میں رضامندی حاصل ہوچکی ہے۔
اور سنن میں آپﷺکا ارشاد گرامی منقول ہے: ’’خرید و فروخت باہمی رضامندی سے ہوتی ہے‘‘ [سنن ابنِ ماجہ: ۲۱۸۵] اور یہاں آپ دونوں میں رضامندی حاصل ہوگئی ہے۔
لہذا اس کے لئے بعد میں رجوع کرکے زیادتی کرنا اس کا حق نہیں بنتا، جیسا کہ اگر کوئی شخص مثال کے طور پر کسی کو کوئی چیز بیچے اور اس سے عقد کیا اور عقد تام ہونے کے بعد وہ رجوع کرکے مطالبہ کرے تو اس کو یہ حق حاصل نہیں ہے، اس لئے کہ اگر اس طرح ہوتا رہے تو لوگوں کے معاملات اور لین دین خراب ہوجائیں ، اس لئے اس شخص کا آپ پر کوئی حق نہیں ہے لیکن اگر آپ بطورِ اکرام اور اس کی دلجوئی کے اس کو دینا چاہیں تو یہ آپ کو اختیار ہے لیکن یہ واجب نہیں ہے