×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / نماز / جہری نماز میں مقتدی کا سورۂ فاتحہ پڑھنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3952
- Aa +

کیا ہم پر جہری نماز میں امام کے ساتھ سورۂ فاتحہ کا پڑھنا لازم ہے؟ اس لئے کہ میرے بھائی کے بقول علامة الألباني رحمه الله کے نزدیک امام کا سورۂ فاتحہ پڑھنا میری قرأت کے قائم مقام ہے ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے

قراءة الفاتحة للمأموم في الصلاة الجهرية

جواب

 

جہری نماز میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے میں تین اقوال ہیں:

پہلا قول :  یہ ہے کہ اگر مقتدی جہری نماز میں امام کی تلاوت سن رہا ہے تو اس کے لئے سورۂ فاتحہ وغیرہ پڑھنا جائز نہیں ہے ، سلفِ صالحین میں سے یہ تمام جمہور علماء کا قول ہے اور یہی امام ابوحنیفہ اور امام احمدکابھی قول ہے اور امام شافعی کابھی اس طرح ایک قول ہے ۔

دوسرا قول:  یہ ہے کہ مقتدی سری نمازوں کی طرح جہری نمازوں میں بھی سورۂ فاتحہ پڑھے اور یہ شوافع اور اصحابِ ظواہر میں سے ابن حزم کا مذہب ہے ۔

تیسرا قول:  یہ ہے کہ مقتدی کے لئے سورۂ فاتحہ کا پڑھنا مستحب ہے ، یہ اہلِ علم میں سے ایک جماعت کا قول ہے جن میں امام اوزاعی سرفہرست ہیں۔

میرے خیال میں سب سے زیادہ أعدل اور أقرب الی الصواب قول جمہور کا قول ہے اور یہ کہ اگر مقتدی امام کی قرأت کو سن رہا ہے تو پھر جہری نمازوں میں وہ سورۂ فاتحہ وغیرہ نہ پڑھے اس لئے کہ اس پر اکثر صحابہ کرام ؓ کا عمل دال ہے اور اکثر احادیث بھی اس پر متفق ہیں اور ا س لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے نماز میں امام کی قرأت کو غور سے سننے کا حکم دیاہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) ’’جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو اسے کان لگاکر غور سے سنو تاکہ تم پر رحم کرے ‘‘(الأعراف: ۲۰۴)  امام کی قرأت کو غور سے سننے پر یہ قرآنی آیت بھی دال ہے اور امام مسلمؒ کی روایت کردہ حدیث بھی دال ہے جو حضرت ابو موسی اشعریؓ سے مروی ہے کہ آپ نے خطبہ دیاپھر ہمارے لئے ہماری سنت بیان فرمائی اور ہمیں ہماری نماز سکھائی اور ارشادافرمایا:’’ پہلے اپنی صفیں سیدھی کرو پھر تم میں سے کوئی تمہاری امامت کرے پھر جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی اس کے ساتھ تکبیر کہو ‘‘ اور ایک لمبی حدیث ذکر کی اور بعض راویوں نے اس زیادتی کے ساتھ ذکر کیا:’’جب وہ قرأت کرے تو تم غورسے سنوـ‘‘اور اس کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے ۔اور اس حدیث کو امام احمد ، ابو داؤد ،نسائی اور ابن ماجہ رحمہم اللہ نے مرفوعاََ ذکرکیا ہے کہ:’’اما م کو بنایا ہی اسی لئے ہے کہ تم اس کی اقتداء کرو پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأ ت کرے تو غور سے سنو‘‘۔

مسلم بن الحجاج سے جب حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:’’یہ

حدیث میرے نزدیک صحیح ہے‘‘۔ اور امام کے پیچھے قرأت کی ممانعت پر جو حدیث دال ہے وہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جسے اصحاب سنن نے روایت کی ہے کہ :’’آپ نے جہری نماز سے سلام پھیر کر ارشاد فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ کچھ پڑھا ہے؟تو ایک آدمی نے عرض کیا : جی ہاں ، اللہ کے رسول! آپ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ میں بھی تو کہوں کہ میرے ساتھ جھگڑا کیوں کیا جارہا ہے؟ راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے جب آپ سے یہ سنا تو اس کے بعد لوگ آپ کے ساتھ جہری نماز میں قرأت کرنے سے منع ہوگئے ، اس حدیث کوحضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کرنے والے راوی ابن اکیمہ کے بارے میں بعض اہلِ علم نے کلام کیا ہے لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اس لئے کہ ان کے بارے میں یحی بن سعید نے فرمایا ہے کہ وہ  ثقہ ہیں اور ان کے علاوہ اور اہلِ علم نے بھی ان کو ثقہ قرار دیاہے ۔ ابن اکیمہ پراس حدیث میں (فانتھی الناس) کے الفاظ کی زیادتی کی وجہ سے طعن کیا گیا ہے  ، اما م بخاریؒ ، امام ذہلیؒ ، امام ابوداؤد ؒ اور ان کے علاوہ اور بھی ائمہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی کے خود ادراج کئے ہوئے الفاظ ہیں ، لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے الاحتجاج بالحدیث ساقط نہیں ہوتااب چاہے وہ حضرت ابوہریرہؓ کے الفاظ ہوں یا پھر امام زہریؒ کے الفاظ ، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ مجموع الفتاوی (۲۷۴/۲۳)میں فرماتے ہیں :’’اگر یہ امام زہری ؒ کے الفاظ ہوں تو پھر یہ سب سے زیادہ واضح دلیل ہے کہ صحابہ کرامؓ  آپکے ساتھ جہری نماز میں قرأت نہیں کرتے تھے،  اس لئے کہ امام زہریؒ اپنے وقت میں سب لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے یا وہ اپنے زمانے میں سب سے زیادہ حدیث کا علم رکھنے والے تھے اور آپ کے پیچھے اگر صحابہ کی قرأت مشروع، واجب یا مستحب ہو تو پھر یہ ان عام احکام میں سے ہے جن کو عام صحابہ اور تابعین اچھی طرح جانتے تھے ، تو اس طرح امام زہری لوگوں میں سب سے زیادہ اس کو جاننے والے ہوں گے ،اور اگر اس کو بیان نہ کیا ہوتا تو پھر اس کی منافی پر استدلال کرتے تو اب یہ کیسے درست ہو سکتا ہے کہ اما م زہری ؒ نے قطعی طور پر کہہ دیا کہ صحابہ کرام ؓ جہری نماز میں آپ (کے پیچھے نہیں پڑھتے تھے ‘‘۔ (انتھی کلامہؒ

اور جہری نماز میں امام کے پیچھے مقتدی کی قرأت کے عدمِ وجوب پر جو دلیل دال ہے وہ یہ

مشہور حدیث ہے :’’جس کا کوئی امام ہو تو پھر امام کی قرأت اس کی قرأت ہے‘‘

اس حدیث کا اخراج صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی جماعت سے مسنداََ اورمرسلاََ بہت سارے ائمہ کرام نے کافی طرق سے کیا ہے اس کی مثل حضرت جابرؓ کی حدیث بھی ہے جس میں ضعف بھی ہے اور اکثر ناقدینِ حدیث نے اس میں کلام کیا ہے اس سب کے باوجود شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ مجموع الفتاوی(۲۷۱/۱۸-۲۷۲)میں فرمایا ہے کہ :’’یہ حدیث مسنداََ بھی روایت کی گئی ہے اور مرسلاََبھی لیکن اکثر ائمہ کرام نے اس کو حضرت عبداللہ ابن شداد ؓ کے طریق سے آپسے مرسلاََ روایت کی ہے اور امام ابن ماجہ اور بعض ائمہ کرام نے اس کو مسنداََ روایت کی ہے اور اس کے مرسل ہونے کوقرآن و حدیث بھی تقویت دیتے ہیں اور صحابہ اور تابعین اور جمہورمیں سے اکثر اہلِ علم نے اس کے مرسل ہونے کے بارے میں کہا ہے اور ائمہ اربعہ وغیرہ کے نزدیک ایسی مرسل حدیث سے حجت پکڑی جاسکتی ہے ۔  اور اس میں سے جس نے حدیث میں ، اس کے طرق اور علل میں کلام کا استیعاب کیا ہے وہ دار قطنی ہے ، اور پیچھے جو گزر گیا اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امام بخاری اور امام مسلم وغیرہ نے حضرت عبادہ بن صامتؓ کی حدیث سے جو روایت کی ہے کہ آپنے ارشاد فرمایا:’’جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نمازہی نہیں ہوئی‘‘،تو اس کا حکم عمومی طور پر نہیں ہے بلکہ یہ مخصوص ہے یعنی پیچھے جو نصوص گزر گئے اور ان جیسے امام مسلم کا اپنی کتاب میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ حدیث کہ آپنے ارشاد فرمایا:’’کہ جس نے نماز میں ام القرآن (سورۂ فاتحہ)نہیں پڑھی تو ناتمام حمل کے اسقاط کی طرح ہے-ایسا تین بار فرمایا‘‘۔تو یہ اور اس جیسی جتنی بھی احادیث ہیں وہ سب مقتدی کے علاوہ پر محمول ہیں ساری احادیث کو جمع کرتے ہوئے اور ان میں عدمِ عموم کی جو تائید کرتا ہے وہ امام احمدکا قول ہے جسے انہوں نے اجماع سے نقل کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں:’’اہلِ اسلام میں سے ہم نے کسی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ اما م جب جہراََ قرأت کررہا ہو توپیچھے مقتدی کی نمازکافی نہیں ہوتی جب تک وہ قرأت نہ کرے ‘‘۔

باقی حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی حدیث کہ آپنے صبح کی نماز پڑھارہے تھے تو آپ علیہ السلام پر قرأت بھاری ہوگئی جب سلام پھیرا تو ارشاد فرمایا:میرے خیال میں تم اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو، ہم نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول بخدا ایسا ہی ہے ، آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ سوائے سورۂ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھو اس لئے کہ جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی‘‘۔اس حدیث کی اخراج اما م احمد نے کی ہے اور اصحاب سنن میں اما م ابن ماجہ کے علاوہ سب نے کی ہے اس میں محمد بن اسحاق ہیں جن کے بارے میں اما م احمد نے فرمایا کہ اس حدیث کو سوائے ابن اسحاق کے کسی نے مرفوع قرارنہیں دی۔اور شیح الاسلام نے مجموع الفتاوی (۲۸۶/۲۳) میں فرمایا ہے :’’بہت سے امور کے ساتھ ائمہ حدیث کے نزدیک یہ حدیث معلول ہے ائمہ میں سے امام احمد وغیرہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ‘‘۔ اورجس نے حدیث کوصحیح اور حسن قراردیاہے (۳۱۵/۲۳):’’اس حدیث میں ہے کہ آپکو علم نہیں تھا کہ آپ کے پیچھے وہ قرأت کرتے ہیں یانہیں؟

اور یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر قرأت خلف الامام مقتدی پر واجب ہوتی تو آپاس کا حکم ضرورارشاد فرماتے اور وقتِ حاجت سے بیان کی تاخیر جائز نہیں ہے اور اگر آپان کے لئے یہ بیا ن فرماتے تو عام صحابہ بھی یہ کرتے جبکہ ان میں سے کسی ایک یا دونے بھی اس کو نہیں کیا ۔اور اس کے سمجھنے میں بھی اس کو کوئی ضرورت نہیں ہے پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپنے اپنے پیچھے جہری نماز میں ان پر قرأت واجب نہیں فرمائی پھر جب آپکو علم ہوا کہ وہ ان کے پیچھے قرأت کرتے ہیں تو آپ نے سورۂ فاتحہ کے علاوہ قرأت کرنے سے ان کو منع فرمایاباقی جو آپپر قرأت کے مشتبہ ہونے کا ذکر کیا گیا ہے تو یہ جہری نماز میں ان کے ساتھ ہوگی چاہے وہ سورۂ فاتحہ کے ساتھ یا کسی اور قرأ ت کے ساتھ لہٰذا یہ علت دو امور پر مشتمل ہے ایک تو یہ کہ امام پر جو چیز ثقل اور اشتباہ کو واجب کرتی ہے اس سے منع کیا گیا ۔

 اس لئے میرے خیال میں پیچھے مذکورہ دلائل اورحضرت عبادہ بن صامتؓ کی حدیث میں نہی کی بناء پر مقتدی کے لئے جہری نما ز میں امام کے پیچھے قرأت کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر امام کی خاموش رہنے والی جگہوں میں قرأت کرے تو پھر یہ مطلوب ہے ورنہ اس کا قرأت ترک کرنے پر بھی اس پر کچھ نہیں آئے گا اس نے آپ کی اس حدیث کو لیا ہے جس میں آپنے منع فرمایا ہے اور آپکا ارشاد بھی ہے کہ:’’جس چیز سے میں نے آپ کو روکا ہے اس سے رک جاؤ اور جس کا میں نے حکم دیا ہے اس کو مقدور بھر کوشش کے ساتھ کیا کرو‘‘۔  اور اس حدیث کا اخراج امام احمد مسلم وغیرہ نے حضرت ابوہریرہؓ سے کی ہے ۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔

آپ کا بھائی

خالد بن عبد الله المصلح

07/09/1424هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں