جناب میرا سوال یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ فاطمہ بن قیس کی جس حدیث کو رد کیا ہے اس سے استدلال کرنا جائز ہے کہ جس عورت کو تین طلاقیں ہو جائے تو نہ اس کو رہائش دی جائے گی اور نہ نان نفقہ؟ اور ان کا یہ کہنا کہ ہم اللہ کی کتاب میں کسی عورت کے قول کے لئے کوئی آیت رد نہیں کریں گے اس لئے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اسے یاد ہے یا بھول گئی ہے۔ جیسا کہ دور حاضر کے بہت سے لوگ احادیث صحیحہ بلکہ متواتر تک کی رد کرتے ہیں کہ وہ ان کے دعویٰ کے مطابق ان کو قبول کرنے سے پہلے ان کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے اور ان کے معانی اور اسباب نزول میں وغیرہ میں خوب غور و خوض کرنا چاہیے جو کہ بہت سی سنتوں کے ضائع ہونے کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات تو بعض ان میں ضعیف اور موضوع احادیث کو قبول کر لیتے ہیں جبکہ اپنے مذکورہ قاعدہ کی بنیاد پر احادیث صحیحہ کو رد کر دیتے ہیں۔وضاحت کا خواستگار ہوں۔
الاحتجاج بقول عمر لرد الأحاديث الصحيحة