حضرات علماء کرام، ہمارا آپ سے ایسے دو علمی مسائل کے بارے میں سوال ہے جس نے سلفی نوجوانوں اور ہمارے طالب علموں کے ہاں ایسا فتنہ و افتراق برپا کر دیا ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو بدعتی قرار دے کر ایک دوسرے کو چھوڑ دیا ہے ۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ: امام مسلمؒ نے اپنی کتاب کی احادیث کو علمی ترتیب کے اعتبار سے مرتب کیا ہے اور اس میں الأصح فالأصح کی رعایت رکھی ہے، اور اصول میں قوی احادیث کو مقدم رکھتے ہیں اور جن میں شواہد اور متابعات کے اعتبار سے تھوڑا سا ضعف ہوتا ہے تو وہ زیادہ تر ابواب میں ہوتے ہیں، جیسا کہ وہ اپنی کتاب میں بعض مناسبات میں احادیث کی علتیں بیان کرتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ: محدثین میں سے متأخرین اور مقدمین کے درمیان اختلاف دیکھا جاتا ہے جیسا کہ بعض متأخرین یا معاصرین ایسی حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں جس کے معلول ہونے پر متقدمین کا اجماع و اتفاق ہوتا ہے، یا ان احادیث کو ضعیف یا معلول قرار دیتے ہیں جن کی ظاہری اسانید پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی صحت پر متقدمین کا اتفاق ہوتا ہے۔ تو (اس طرح) بعض کہتے ہیں کہ متقدمین پر رد کرنے اور ان پر چڑھائی کرنے سے پہلے انہوں نے تصحیح و تعلیل کے اعتبار سے جس حدیث پر اتفاق کیا ہے تو اس سلسلے میں اس کی طرف رجوع کرنی چاہئے، ان کے کلام کے متعلق جانکاری حاصل کرنی چاہئے اور ان کی دلیل میں غور و خوض کرنا چاہئے، اس لئے کہ ان کو اس بارے میں زیادہ علم ہے ، تو کیا یہ مسائل ان بڑوں اصول میں سے ہیں جن میں مخالف کو بدعتی قرار دیا جاتا ہے، اور اس کو گمراہ سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے ؟ ان دو مسئلوں میں ہم آپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اسلام اور اہلِ اسلام کی طرف سے۔
تضعيف الأحاديث ليست مسألة يبدع فيها المخالف