×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / متفرق فتاوى جات / سُخن طرازی اور شعر گوئی کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2781
- Aa +

میرے صد قابلِ احترام! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔۔۔ میرا سوال یہ ہے کہ لکھنے، پڑھنے اور سننے کے اعتبار سے سخن طرازی اور شعر گوئی کا کیا حکم ہے ؟

حكم شعر الغزل : كتابة وقراءة واستماعا

جواب

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

اما بعد۔۔۔

ایک ایمان والے کو اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہونا چاہئے کہ اس سے جو بھی عمل وقوع پذیر ہوتا ہے تو اس پر ضرور اس کی پُرسش اور پوچھ گچھ ہوگی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اس پر ایک نگران مقرر ہوتا ہے، ہر وقت (لکھنے کے لئے) تیار‘‘۔ (ق:  ۱۸)۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد گرامی ہے : ’’کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کی کوئی نگرانی کرنے والا موجود نہ ہو‘‘۔  (طارقـ: ۴)۔ اور اللہ کے لاڈلے حبیبنے اہلِ اسلام کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ کلمہ خیر کے علاوہ وہ اپنی زبانوں کو لگام دیں جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث (۵۵۵۹) اور مسلم شریف کی حدیث (۴۷) میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ دو جہاں کے سردار حضرت محمدنے ارشاد فرمایا: ’’جو بھی شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ یا تو کلمہ خیر کہے یا پھر چپ سادھ لے‘‘۔

بہر کیف ! اہلِ علم کے نزدیک ایسی شہوت انگیز باتیں جو جنسی جذبات اور نازیبا حرکات پر برانگیختہ کرتی ہیں مطلقًا حرام ہیں، نہ تو ایسی باتیں کرنا جائز ہے اور نہ ہی ان کا سننا اور ہمہ وقت ان میں مشغول و مصروف رہنا جائز ہے، اس لئے کہ دل کمزور ہیں جس کی وجہ سے انسان جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں، اور اہلِ علم نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جو شخص ایسی شعر گوئی کرے جو باعث فتنہ و فساد ہو تو وہ سرزنش اور فہمائش کا مستحق ہے۔ البتہ اگر ایسے عشقیہ اشعار ہوں جن میں غیر محرم عورتوں سے خطاب نہ ہو تو پھر اس میں گنجائش ہے جیسا کہ کعب بن زھیر کے قصیدہ میں ہے : بانت سعاد فقلبی الیوم متبول ۔ترجمۃ:’’سعاد مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے جس کی وجہ سے آج میرا دل افسردہ اور حواس باختہ ہے‘‘۔

بہر کیف ! ایک مسلمان کو حتی الامکان اس بات سے بچنا چاہئے کہ وہ خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے۔

آپ کا بھائی

أ.د. خالد المصلح

15 /3 /1425هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں