×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / شعبان میں روزے کی فضیلت

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3739
- Aa +

شعبان میں روزے کی کیا فضیلت ہے؟

فضل الصيام في شعبان

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ تعالی کی توفیق سے جواب دیتے ہوے ہم عرض کرتے ہے کہ

صحیحین میں عائشہؓ کی حدیث میں ہےکہ انہوں نے فرمایا:

(میں نے آپﷺ کو رمضان کے علاوہ نہیں دیکھا کہ وہ پورا یا مکمل مہینے کا روزہ رکھتا ہو) لہذا نبیﷺ سے مکمل ماہ کے روزے رکھنا ثابت نہیں سوائے رمضان کے۔

(اورمیں نے نبیﷺکو سوائے شعبان کے کسی مہینے میں زیادہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا) اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کا اکثرروزے رکھنے کا معمول شعبان میں ہی ہوتا تھا اوریہ بطور نفل اور رمضان کےلئے تیاری ہوتی۔ اور اس مہینے میں روزہ رکھنے کی یہی حکمت ہے۔ اوراس کے علاوہ کی حکمتوں کابھی کہا گیا ہے لیکن مقصود یہ ہے کہ شعبان میں اکثرروزہ رکھاکرتےتھے ۔ اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ شعبان کے اول وآخرمیں روزہ رکھنا برابرہے ۔

اورصحیحین میں حضرت ابوہریرۃؓ کے حوالے سے حدیث ہے کہ نبی نےفرمایا: ( رمضان سے پہلے ایک  یا دو روزہ  نہ رکھو البتہ اگرروزہ ایسا ہو کہ ہرکوئی اس  دن کا روزہ رکھتا ہو تو پھر روزہ رکھ لے)۔ پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں جو رمضان سے پہلے ایک یا دودن کے روزے سے روکنا ہے یہ اس آدمی کےلئےہیں جوآدمی رمضان کی وجہ سے احتیاط کرنا چاہتاہو۔ کیونکہ یہ رمضان میں زیادتی کی طرف لے جاتا ہے ۔ اورنبینے تو فرمایا : (مگر یہ کہ روزہ ایسا ہوجس کورکھتا ہو کوئی تو وہ بھی روزہ رکھے)  یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر یہ روزہ عادت کے طور پرہو جیسے کہ پیراورجمعرات کے روزے ہوتے ہیں اوراتفاقا رمضان سے ایک یا دو دن پہلے پیر کا دن آجائے یا مثال کے طور پر اس کی عادت ہو ہر مہینہ تین روزوں کا اور اس کو تین روزے پورا کرنے کا موقع نہ ملے سوائے رمضان سے دو تین پہلے کا تو اسے شخص کے لئے کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ معتاد ہے، لیکن رمضان کی وجہ سے احتیاط کرتے ہوئے روزے نہ رکھے۔

یہاں ایک آخری مسئلہ باقی رہا جو سنن میں حضرت ابوہریرۃ ؓ  کی روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : (جب شعبان آدھ کو پہنچے تو پھر روزہ نہ رکھو) پس یہ حدیث صحیح نہیں اسناد کےاعتبارسےلہذا جب شعبان آدھا گزر جائے تو روزہ رکھنے سے روکنا صحیح نہیں ہوگا اس کے علاوہ یہ حدیث اس بات کی بھی مخالف ہے جس پر ابوہریرہؓ کی حدیث دلالت کرتی ہے کہ (رمضان سے پہلے ایک یا دو دن روزہ نہ رکھو) اوراسی مسئلہ کے مطابق جتنا چاہے اس مہینےکے اول سے ہو یا آخرسے روزہ رکھو سوائے رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھ احتیاط کرنے کی وجہ سے اور اگر عادت کی وجہ سے رکھ لئے،توکوئی حرج نہیں۔


سب سے زیادہ دیکھا گیا

ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں