×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / حمل کا برقراررہنا اور روزوں کی قضاء کی طاقت نہ ہو؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3256
- Aa +

جس عورت کا حمل پے در پے ہو اور اس کو قضاء کی طاقت نہ ہو اس کے لئے کیا حکم ہے؟

تتابع حملها ولم تستطع القضاء

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ تعالی کی توفیق سے جواب دیتے ہوے ہم عرض کرتے ہے کہ

اس میں آپ پر کوئی حرج نہیں ہے اورجب آپ کو استطاعت ہوتو جودن آپ کے ذمے لازم ہوچکے ہیں ان کا روزہ رکھ لیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (جوتم میں سےمریض ہویاسفر میں ہو تو اس پر گنتی کے روزے ہے دوسرے دنوں کی) (البقرۃ:۱۸۵) یہ فرض روزوں کا حکم ہے پس قضاء روزوں کا بھی یہی معاملہ ہوگا توجب تک اسے روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تواس کے لئے روزہ رکھنا اس وقت ہوگا جب اسے قدرت حاصل ہوجائے۔ اورممکن ہے کہ حمل کی  مدت اتنی لمبی ہوجائے کہ رمضان کا مہینہ بھی داخل ہوجائے تو اس کو آنے والے رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کی قدرت حاصل نہیں ہوگی تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس رمضان کے گزرنے کے بعد روزہ رکھ لے۔ اور اس کے ذمہ صرف روزہ ہی ہے کھانا کھلانا نہیں۔ اور جن لوگوں نے یہ کہا ہےکہ جب رمضان سے روزہ موخر کرے تواس کے ذمہ اب کھانا کھلانا ہے ،توان کے اس قول کا مطلب بھی یہ ہے کہ جب اس طرح تاخیر کرنا اس نے بغیر عذر کے کیا ہو۔اور اس عورت نے توعذر کی بنا پر تاخیر کی ہے۔

اور جورمضان کے بعد شوال ،ذی قعدہ، اورذی الحجہ وغیرہ کےمہینوں کا وقت گزرا تو اس کا بھی کوئی کفارہ نہیں کیونکہ اس فریضے میں بڑی وسعت ہے نہ توقضاء رکھنے کے حوالے سے کوئی تنگی ہے اور نہ اس سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ قضاء اول  وقت ہی میں کرے لہذا جب اسے عذر پیش آیا اور یہ عذر رمضان تک  جاری رہا تویہ معذورہ ہے۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں