×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / متفرق فتاوى جات / صحابہؓ نے تصاویر کو لٹکے برقرار کیوں رکھا؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2454
- Aa +

مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ صحابہؓ مختلف جگہوں اور ملکوں میں گئے جہاں تماثیل یعنی تصویریں تھیں مگر انہوں نے ان کو نہیں ہٹایا تو اس کا کیا جواب ہے، یہ طبری نے اپنی تأریخ کی کتاب میں ذکر کیا ہے(۴۶۴/۲)،(۴۷۸/۴) کسری کے دربار کی دیواروں پر رنگین تصاویر تھیں جو کی طبیعی حجم میں بڑی ہی دقت اور سلیقے سے بنائی گئی تھیں، اور یہ تصاویر آج بھی موجود ہیں۔ اب ظاہری بات ہے کہ یہ تصویریں زمین تلے دبی تو نہیں تھیں، بلکہ محل میں واضح نظر آتی تھیں اور اسی محل میں صحابہؓ کا ایک بڑا عدد آکر اقامت پذیر بھی ہوا تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہ تصاویر نہ دیکھی ہوں؟ جہاں تک یہ بات ہے کہ توڑنا ممکن نہ ہو گا تو اس کی بجائے ظاہری شکل تو بگاڑ ہی سکتے تھے، اور یہ کام کرنے کیلئے کسی بڑی رقم بھی درکار نہ ہوگی اور نہ ہی لوگوں کا ایک بڑا عدد چاہیئے ہوگا جو یہ کام سر انجام دے، بڑا ہی آسان سا طریقہ ہے کہ حاکم دیواروں کو دوبارہ سے رنگ کرنے کا حکم دے دے۔ یہ سب جانچنے کے بعد صرف یہی توجیہ رہ جاتی ہے کہ وہ تصاویر کو منہدم کرنے والی احادیث سے یہی سمجھے ہونگے کہ وہ ان تماثیل و تصاویر کے ساتھ خاص ہیں جو مقدس سمجھی جائیں یا یہ کہ ایسی تصاویر ہوں جن کی عبادت کی جائے۔ یہ تصاویر برقرار رہیں جن کو دیکھا جاتا رہے اور ادباء اور مؤرخین نے ذکر کیا جیسا کہ یاقوت الحموی نے معجم البلدان (۲۹۵/۱) میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح بحتری نے بھی ان کی اپنے ایک قصیدے میں تصویر کشی کی ہے کہ یہ اتنی دقت و نفاست سے بنائی گئیں ہیں کہ دیکھنے والا انہیں حقیقی سمجھنے لگے اور ان کو چھو کر دیکھے کہ یہ واقعی تصاویر ہیں، تو صحابہؓ نے اس کو کیوں برقرار رکھا؟

لماذا ترك الصحابة هذه الصور معلقة؟

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ کیتوفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ

آپ نے جو کچھ بھی ذکر کیا ہے وہ محل اشکال ہے اس کا جواب درج ذیل ہے:

سب سے پہلے تو یہ کہ تصویر کی حرمت پر جو نصوص دلالت کر رہی ہیں اہل علم ان نصوص میں تحریم کے مناط یعنی دائرہ کار پر متفق نہیں، اگرچہ عام علماء کا مذہب یہ ہے کہ تماثیل اور مجسم تصاویر حرام ہیں چاہے ان کی عبادت کی جاتی ہو یا نہیں، بعض نے بچوں کے کھلونوں کا استثناء ذکر کیا ہے۔

دوسرا یہ کہ آپؐ کے عام قول و فعل سے یہ ثابت ہے کہ ہر تصویر کو زائل کیا جائے، کیونکہ آپؐ نے بذات خود مکہ میں داخل ہو کر یہ کرکے دکھایا اور اپنے اصحابؓ کو بھی بھیجا جیسا کہ علیؓ کی حدیث میں ہے کہ ابو الہیاج کو آپؓ نے فرمایا:((کیا میں تمہیں وہ ذمہ داری دے کر نہ بھیجوں جو رسول اللہؐ نے مجھے دے کر بھیجا؛ کوئی مورتی ایسی نہ چھوڑنا جسے تم گراؤ نہیں اور کوئی قبر ایسی نہ چھوڑنا جسے تم برابر نہ کرو)) رواہ مسلم، لہذا آپؐ کا قول و فعل غیر کے قول و فعل پر مقدم ہے۔

تیسرا یہ کہ اگر یہ ثابت ہو بھی جائے کہ صحابہؓ نے ان تصاویر کو باقی رکھا تو بھی یہ ایک ایسا قضیہ ہے جس میں متعدد احتمالات ہیں لہذا محض اس وجہ سے واضح نصوص کو چھوڑنا صحیح نہیں۔

آپ کا بھائی

خالد المصلح

18/10/1424هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں