×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / سورج غروب ہونے سے پہلے افطار کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2686
- Aa +

سورج غروب ہونے سے پہلے افطار کا کیا حکم ہے؟

الإفطار قبل غروب الشمس

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ کیتوفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

جہاں تک ایک دومنٹ کی بات ہے تو یہ ایک نسبی سا امر ہے اب ہمیں نہیں پتا کہ کوئی شخص بالکل درست ٹائم پر آذان دیتا ہے یا نہیں ، اس کی گھڑی سو فیصد صحیح ہے یا نہیں؟ بہرحال ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے غروب آفتاب سے پہلے اذان دے دی چاہے ایک منٹ پہلے ہو یا آدھا منٹ یا ایک پل ہی کیوں نہ ہو روزہ افطار کرنا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے: ((اگر رات اس طرف سے آ جائے اور اس طرف کو چلا جائے تو روزہ دار روزہ کھول لے)) اور اللہ تعالی فرماتے ہیں: ((اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہو کر تم پر واضح نہ ہو جائے اس کے بعد رات آنے تک روزے پورے کرو)) [البقرہ:۱۸۷]  اور رات تب صحیح طرح متحقق ہوتی ہے جب سورج کا گولا مکمل ڈھل جاتا ہے لہذا جس نے سورج کے غروب ہونے سے پہلے روزہ افطار کر لیا تو اگر تو اسے اس حکم کا علم تھا تو اس کا روزہ فاسد ہو گیا اور اگر علم نہیں تھا مگر شک تھا تو بھی روزہ فاسد ہو گیا اگر یہ واضح تھا کہ سورج ابھی تک غروب نہیں ہوا اور یہ اس لئے کہ اس کیلئے شک کے وقت میں بھی کھانا جائز نہیں بلکہ یقین ضروری ہے لہذا اس کو چاہیئے کہ انتظار کرے یہاں تک کہ ظن غالب یا یقین ہو جائے۔

اور اگر اس نے غالب گمان کی بنیاد پر روزہ افظار کیا ، جیسے یہ کہ بادل بہت تھے یا کوئی ایسی جگہ پر تھا جہاں اذان نہیں ہوتی اور اس بنیاد پر افطار کیا کہ سورج غروب ہو چکا ہے، بعد میں اس کو پتہ چلا کہ ابھی تو غروب نہیں ہوا تھا تو اس صورت کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں: ایک تو یہ کہ وہ افطار کرنے میں معذور شمار کیا جائے، اب جب اس کو یہ واضح ہو جائے کہ سورج ابھی غروب نہیں ہوا تو اس پر واجب ہے کہ فوراََ رک جائے، لیکن پھر علماء کا اختلاف ہے کہ کیا اس پر واجب ہے کہ اس روزے کی قضاء کرے یا نہیں؟ تو دو قول ہیں جن میں جمہور علماء کا تو یہ مذہب ہے کہ اس پر قضاء واجب ہے، اور اہل علم کی ایک جماعت کا مذہب یہ ہے کہ اس پر کوئی قضاء واجب نہیں اور ان کا یہ کہنا حضرت اسماء کی حدیث صحیح کی بنیاد پر ہے کہ انہوں نے کہا: (( ہم نے نبیؐ کے زمانے میں بادلوں والے دن میں روزہ افطار کیا پھر سورج نکل گیا )) اور یہ بات تو معلوم ہے کہ تقوی و پرہیزگاری میں سب سے زیادہ حریص اور اللہ تعالی کا حکم بجا لانے میں سب سے آگے صحابہؓ ہیں جنہوں نے وحی نازل ہوتے دیکھی ۔

بہتریں لوگ میری صدی کے ہیں پھر ان کے بعد والے))

جب انہوں نے سورج کو غائب دیکھا تو روزہ کھول لیا، ہشام سے پوچھا گیا: کیا انہیں قضاء کا حکم دیا گیا؟ یا یہ کہ کیا انہوں نے قضاء کیا؟ تو وہ کہنے لگے: کیا قضاء کرنا ضروری نہیں؟ مطلب یہ کہ لازماََ انہوں نے قضاء کیا ہو گا، مگر یہ ان کا اپنا قول ہے نہ کہ حضرت اسماء ؓ کا، ان سے کچھ ایسا وارد نہیں ہوا کہ انہیں قضاء کا حکم دیا گیا تھا اور یہ اس اصل پر مبنی ہے کہ جس نے حکم کو نہ جانتے ہوئے افطار کر لیا یا حال کا اسے پتہ نہیں تھا تو اس پر کوئی حرج نہیں، اس کا روزہ ٹھیک ہے اور اس پر کوئی قضاء واجب نہیں


سب سے زیادہ دیکھا گیا

ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں