قرآن میں مجاز کی کیا حقیقت ہے؟ میرے بعض دوستوں نے مجھے بتایا کہ قرآن کو ہر ہر حرف کے اعتبار سے قبول کرنا چاہئیے، لہذا جب ’’اللہ کے ہاتھ‘‘ کا ذکر آئے تو ہم پر لازم ہے کہ اسے ایسے ہی قبول کریں جیسے مذکور ہے اور اس کی تأویل نہ کریں، کیا یہ صحیح ہے؟ اور امام غزالی ؒ کی کتاب جواہر القرآن میں تشبیہ سے کیا مراد ہے: ’’قرآن ایک نا ختم ہونے والا حیران کن نکات سے بھرا ہوا سمندر ہے جو بڑے ہی قیمتی موتیوں سے بھر پور ہے، بعض لوگ بس ان نکات پر ہی اکتفاء کر لیتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ اس کے موتیوں کی تلاش کرتے ہیں‘‘ اور اس قول سے کیا مراد ہے’’قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن‘‘؟
ما هي حقيقة المجاز في القرآن