×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​زکوٰۃ / صاحبِ زکوٰۃ کا اپنے ملک سے باہر زکوٰۃ نکالنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2460
- Aa +

کیا صاحبِ زکوٰۃ کا اپنے ملک سے باہر زکوٰۃ نکالنا جائز ہے؟

إخراج زكاة المال خارج بلد المزكي

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

اگرکسی مصلحت یا ضرورت کے پیشِ نظر ایسا کیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، ورنہ تو اس میں اصل بات یہی ہے کہ زکوٰۃ کا مال جہاں انسان خود ہو تو وہاں کے فقراء کو دینا چاہئے ، اس لئے کہ اموال کی زکوٰۃ مال کے تابع ہوتی ہے اور بدن کی زکوٰۃ بدن کے تابع ہوتی ہے ، لہٰذا صدقۂ فطر آپ وہاں ادا کریں جہاں آپ خود ہوں ، یعنی جہاں بھی صدقۂ فطر کا وقت آپ پہ آجائے تو آپ وہاں ادا کرلیں ، اور اس کا منتقل کرنے کی دو حالتیں ہیں : (۱) بدن کی زکوٰۃ کی حالت میں (۲) مال کی زکوٰۃ کی حالت میں (مصلحت اور ضرورت کے تحت)۔

اور جہاں تک مال کی بات ہے تو اس کی زکوٰۃ مال کے تابع ہے ، اس لئے کہ جب لوگ آپ کو مالدار اور صاحبِ استطاعت دیکھیں گے اور آپ کی طرف سے کسی قسم کی زکوٰۃ نہیں دیکھیں گے تو آپ لوگوں کے درمیان موضعِ تہمت بن جائیں گے ، اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اس زکوٰۃ کے مستحق بھی ہیں کیونکہ وہ اس ملک کے باسی ہیں ، اسی لئے اکثر فقہائے کرام کا مذہب یہ ہے کہ اپنے ملک سے کسی اور ملک زکوٰۃ کے مال کو منتقل کرنا جائز نہیں ہے ، یہی اہل علم کی ایک بڑی جماعت کا مذہب ہے۔

اور اہلِ علم کی دوسری جماعت کا مذہب یہ ہے کہ زکوٰۃ کے مال کو کسی دوسرے ملک منتقل کرنا اگر کسی مصلحت یا ضرورت کے تحت ہو توجائز ہے اور ان کا استدلا ل صحیحین میں وارد شدہ حضرت ابن عباسؓ کی حدیث سے ہے کہ اللہ کے رسولنے حضرت معاذ ؓ کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’وہاں کے لوگوں کو یہ بات بھی بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لی جاتی ہے اور ان کے غریب لوگوں پر تقسیم کی جاتی ہے‘‘۔

اور حدیث سے وجہِ استدلال یہ ہے کہ زکوٰۃ کا مال مسلمانوں ہی میں سے ان کے مالداروں سے لیا جاتا ہے اور مسلمانوں ہی میں سے ان کے فقراء پر خرچ کیا جاتا ہے ، لہٰذا جنہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے ان کا یہی کہنا ہے۔

اور جو کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کا مال کسی اور ملک منتقل کرنا جائز نہیں ہے تو وہ بھی اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں (أغنیاءھم) یعنی: اس ملک کے مالداروں کے فقراء پر، اس لئے کہ یہاں ضمیر مخاطبین کی طرف لوٹتی ہے (أعلمھم أن اللہ افترض علیھم)۔

بہرکیف! یہ تو فقہائے کرام کے اپنے اقوال ہیں جہاں تک مجھے لگتا ہے تو میرے نزدیک اس مسئلہ میں کافی وسعت ہے اور خاص کر جب وہاں کوئی مصلحت یا ضرورت ہو


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں