×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / البيوع / مکان حاصل کرنے کے لیے سود لینا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2681
- Aa +

محترم جناب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، کیا مکان حاصل کرنے کی ضرورت ان ضروریات میں سے شمار ہوتی ہے جن سے سود لینا جائز ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر بلاد کفر میں؟

الربا من اجل المسکن

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،

رہائش کا مکان ان  بنیادی ضروریات میں سے ہے جن کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں اور خاص طور پر جب  یہ گھر اس کی سردی اور گرمی سے حفاظت بھی کرتا ہے ، اس لیے علماء کی ایک جماعت نے یہ بات ایسے ہی ذکر کی ہے۔

تو لہذا اگر انسان کو رہائش کا مکان حاصل کرنے کے لیے سود پر قرضہ لینے کے سوا اور کوئی راستہ نہ ہو تو اس وقت ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سود پر قرضہ لینا جائز ہے ۔ کیونکہ (ضرورتیں محرمات کو جائز کردے تھی ہیں) کے قاعدہ کے تحت  سود کا گناہ اور محرمات سے الگ نہیں ہے ، جیسے کے مالکیہ شافعیہ اور حنابلہ ایک جماعت نے ذکر کیا ہے۔ ان حضرات نے چندایسے مسائل  ذکر کی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کے ضرورت کے وقت سودجائز  ہوجاتا ہے۔بغیر اس بات کی طرف  دیکھتے ہوے کے وہ شخص بلاد کفر میں ہے یا بلاد اسلام میں۔کیونکہ مسئلہ کی بنیاد ضرورت ہے تو جہاں ضرورت پائی جائے گی وہی  اسکا حکم بھی پایا جائے گا ۔

لیکن ایک مسلمان شخص کے لیے ضروری ہے کہ اس  مسئلہ اور اس جیسے اور مسئلوں میں جہاں ضرورت کے بنا پر حرام کام  کا ارتکاب کیا جاتا ہے ، ان میں ذرا غور کرے کہ وہاں حرام کے لیے ضرورت اپنی حقیقی معنوں میں پائی جاتی ہو، تو لہذا ضرورت وہ کام ہے جسکے بغیر انسان کا کوئی چارہ کار نہیں ہوتا ۔

اور اس بات کا اہتمام ہو کہ ضرورت حرام کام کو صرف دو شرطوں کے ساتھ جائز  کرتی ہے:

۱۔  یہ بات طے پائے کہ ضرر کو دور کرنے کے لیے حرام کام کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔

۲۔  یہ بات طے پائے کہ اس حرام کے کرنے سے یہ ضرر دور ہوجائے گا۔

اور اس سب کے باوجود  مسلمان کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ اس بات سے باخبر رہے کہ خرید و فروخت  میں سود اور قرضہ میں سود ان سخت کبیرہ گناہوں میں سے ہیں جو اللہ  جل جلالہ کے قہر وغضب کو مسلط کرتی ہے،اور اگر یہاں جائز ہے تو کسی ضرورت کے بنا پر ہے، اور جہاں کوئی شک شبہ واقع ہوجائے کہ کسی مسئلہ میں یہ شروط اور تفصیل پوری طرح  موجود ہے کے نہیں  تو اصل تو یہی ہے کہ ہر مسئلہ کو اپنے حال پر ہی  چھوڑ دیا جائے ، اور وہ  سود کا ناجائز ہونا ہے۔ اے اللہ ہماری رہنمائی فرما اور ہمیں ہمارے شر سے بچا۔

آپ کا بھائی/

أ. د.خالد المصلح

24 /11/ 1428هـ


سب سے زیادہ دیکھا گیا

ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں