×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / البيوع / کفیل کا اپنے مزدوروں کے ساتھ پیسوں کے عوض معاملہ طئے کرنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2698
- Aa +

محترم شیخ اگرمیں ایک دکان یا لانڈری (کپڑے دھونے کی دکان) کھولوں اور پھر مزدوروں کو دو ہزار کرایہ کے بدلے دے دوں، تو کیا یہ جائز ہے ؟

تعاقد الكفيل مع عماله بأجر

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

 درحقیقت یہ کفیل اور جس کی کفالت کی جاری ہی ہے دونوں کے درمیان ایک قسم کا معاملہ ہے اور یہ عقد اذعان (مجبور کرنا) کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے، جن میں جس میں کفیل مکفول (جس کی کفالت کی جا رہی ہے)  کچھ ایسی شروط پر مجبور کرتا ہے جن پر ممکن ہے کہ مکفول راضی بھی نہ ہو، اور ممکن ہے اس معاملہ میں کسی پر زیادتی ہو رہی ہو اور اسکا حق بھی مارا جا رہا ہو ۔ تو میرے نزدیک تو اس طرح کے معاملات کو ترک کرنے میں ہی سلامتی ہے، خاص طور پر اگر جس ملک میں یہ معاملہ ہو رہا ہو اس ملک کی حکومت ہی اس معاملہ کو منع کرتی ہو۔

کچھ لوگ تو مزدور کو ماہانہ تنخواہ کے نام پر لے آتے ہیں، پھر اسے کہتے ہیں: کوئی تنخواہ نہیں ہے ۔ یا تو اس صورت (جو اوپر ذکر ہوگئی) کے مطابق کام کر نہیں تو تمہیں واپس اپنے ملک بیج دوں گا ۔ اس معاملہ میں وعدہ خلافی ہے، جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: "اے ایمان والوں معاہدوں کو پورا کرو" {المائدۃ: ۱

 لہذا مالدار لوگوں پر لازم ہے کہ اللہ سے ڈرے ، اور ایسا راستہ اختیار کریں جس میں معاشرہ کے حقوق محفوظ ہو، کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں میں نے اس لیے یہ طریقہ اختیار کیا کیونکہ یہ مزدور لوگ میرا مال کھا جاتے ہیں اور مجھے میرا حق نہیں ادا کرتے ۔ تو یہ بات ٹھیک نہیں کیونکہ ظلم کو ظلم سے دور نہیں کیا جاتا


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں