×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

مکتبہ / جمعہ کے خطبہ جات / تقلید کی لگام

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2991
- Aa +

خطبۂ اول:

تمام تعریفیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں  اوراسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ جس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہدایت دیں تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں  ہےاور جس کو گمراہ کردیں تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔

امابعد!

        اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور جان لو کہ وہ اللہ جو پاک ہے اور اس کا ذکر بلند ہے اس نے  مؤمن اور مسلمان اُمّت کو یہودی، نصرانی، مشرکین اور ان کے علاوہ دیگر کافروں کی پیروی سے منع کیا ہے۔ اس کےلئے اس نے اپنی حکمت سے بھری  کتاب میں بہت سارے مقامات میں ان کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے، ان کی پیروی اوران کی تابعداری کرنے  سے بھی روکا ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: (( او رجو حق بات تمہارے پاس آگئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔)) اللہ ﷻ فرماتے ہیں: ((اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، اوران کی اس بات سے بچ کر رہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال کر کسی ایسے حکم سے ہٹادیں جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہے۔)) اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((اے نبی! اللہ سے ڈرتے رہو، اور کافروں اور منافقوں کا کہنا مت مانو۔)) کافروں کی پیروی اور ان کی مشابہت اختیار کرنا ان کی فرمانبرداری کی بہت بڑی صورت میں سے ہے۔

        اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((اے ایمان والو! یہودیوں اور نصرانیوں کو یارومددگار نہ بناؤ۔ یہ خود ہی ایک دوسرے کے یارومددگار ہیں اور تم میں سے جو شخص ان کی دوستی کادم بھرے گا تو پھر وہ انہی میں سے ہوگا۔ یقیناً اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔))

        وہ آیات  جو کافروں کی مشابہت سے روکتی اور ڈراتی ہیں وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی کتاب میں بہت زیادہ ہیں۔

        رسول اللہ ﷺ نے بھی یہودیوں، نصرانیوں اور ان کے علاوہ دیگر کافر اُمّتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے بہت ساری احادیث میں منع فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جسے إمام أحمدؒ اور إمام أبو داودؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سےعمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی  میں سے ہوتا ہے۔‘‘

        رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا ہے جو کافروں کے ساتھ مشابہت اختیار کرے۔ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’وہ انسان ہم میں سے نہیں ہے جس نے ہمارے علاوہ کی مشابہت اختیار کی۔ نہ یہودیوں کی مشابہت اختیار کرو اور نہ نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرو۔‘‘

        اس حدیثِ مبارک میں کافروں کی مشابہت سے بہت زیادہ ڈرایا گیا ہےاور بہت زیادہ  نفرت دلائی گئی ہے کہ جو ان کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔ ہم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے رسوائی سے پناہ مانگتے ہیں۔

        نبی کریم ﷺ نے بہت سارے اسلامی قوانین، احکام اور آداب کی علّت یہودیوں، عیسائیوں اور ان کے علاوہ دیگر کافر اُمّتوں کی مخالفت قرار دی ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کافروں کی مخالفت نبوّت اور شریعت کا مقصد ہے۔

        انہی میں سے وہ حدیث ہے جسے إمام أبو داودؒ نے حضرت شدّاد بن أوس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہودیوں کی مخالفت کرو۔ وہ اپنی جوتیوں اور چپلوں میں نماز نہیں پڑھتے۔‘‘

        رسول اللہ ﷺ نے دوسری حدیث میں فرمایا: ’’یہود اور نصاری رنگ استعمال نہیں کرتے۔ تم ان کی مخالفت کرو۔‘‘

        رسول اللہ ﷺ نےیہ بھی فرمایا: ’’مشرکین کی مخالفت کرو، مونچھوں کو کترواؤ اور داڑھی کو بڑھاؤ۔‘‘

        اس قسم کی مثالیں سنّت میں بہت زیادہ ہیں، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے کفّار کی مخالفت کو دین کے ظاہر ہونے اور غلبہ کا سبب قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس حدیثِ مبارکہ میں فرماتے ہیں جسے إمام أبو داودؒ نے حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے: ’’دین ہمیشہ غالب ہی رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کریں گے، کیونکہ یہودی اور نصرانی افطار دیر سے کرتے ہیں۔‘‘

        جو انسان اہلِ علم کے مذاہب اور آراء  کے مختلف ہونے کے باوجود ان کے کلام میں غور کرے گا وہ اچھی طرح جان لے گا کہ اس بات  میں کوئی شک اور  شبہ نہیں ہے   کہ ان کا کافروں کی مشابہت  نہ اختیار کرنے  اورلازمی طور پر ان کی مخالفت کرنے میں اجماع ہے۔ یہ  اتفاق اس بارے میں  آنے والی بہت زیادہ نصوص کی وجہ سے ہے۔ اس اتفاق کی یہ بھی وجہ ہے کہ کافروں کی مخالفت کرنا اور ان کی مشابہت کوچھوڑنا دل کی درستگی اور استقامت کا سبب ہے۔

شیخ الإسلام علّامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’خلاصہ یہ ہے کہ کافروں کی مثال دِل کے مریض یا اس سے بھی زیادہ بیمار کی طرح ہے۔ جب بھی دل بیمار ہوگا تو دیگر اعضاء بالکل بھی ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ إیمان کی درستگی اسی میں ہے کہ دِل کے مریضوں کی ان کے  کسی بھی کام میں پیروی نہ کی جائے۔  ‘‘

        اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غیر مسلموں کی ان کے ہر کام میں  مخالفت شارع علیہ السلام کا مقصد ہے۔ صرف ان کے عقائد یا ان کی عبادتوں میں مشابہت سے ممانعت نہیں ہے، بلکہ یہ ممانعت ان کی عادتوں، آداب، اخلاق اور ان کی زندگی کے تمام کاموں میں ہے۔

 باوجود اس کے کہ ایسی نصوص بہت زیادہ ہیں جو کفّار کی مشابہت، ان کی پیروی اور ان کی اتباع سے منع کرتی ہیں، پھر بھی رسول اللہ ﷺ نے یہ خبر بیان فرمادی تھی کہ اُمّت کافروں کی مشابہت اور ان کی پیروی میں پڑجائے گی۔ حضرت أبو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم ضرور اپنے سے پہلے  لوگوں کے طور وطریقوں کی اس طرح پیروی کروگے جس طرح ایک بالشت دوسری بالشت کے برابر ہوتی ہے، حتّیٰ کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے تو تم اس میں بھی ان کے پیچھے لگوگے۔ ہم نے کہا یا رسول اللہ! کیا وہ یہودی اور عیسائی ہیں؟  آپ ﷺ نے فرمایا :  تو اور کون ہیں؟‘‘

آج مشرق اور مغرب میں اُمّتِ مسلمہ کی کچھ جماعتیں شکل وصورت  اور لباس میں کافر اُمّتوں کی  نقل کررہی ہیں اور کھانے پینے کے آداب،  معاشرت اور ملنے جلنے کے طرز ، بات، معاملات اور ان کے علاوہ دیگر چیزوں میں ان کے راستہ کی پیروی کررہی ہیں اور   ان کے خیالات،آراء، اقدار، سوچ اور طریقے بھی حاصل کرتی ہیں، یہاں تک کہ اُمّت ِمسلمہ کی بہت بڑی  جماعت اپنی زندگی، سوچ اور طریقوں میں مغربی زندگی اور سوچ میں ڈوب گئی ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں شاعر نے سچ کہا ہے:؎

        عزّت کے نشانات ضائع ہوگئے اور عزّت بھی ریزہ ریزہ ہوگئی

                ہمارے سے عزّت اور گھروں کو اجاڑ دیا گیا

        ہمارے اخلاق اور طبعیتیں تبدیل ہوگئیں

                اور نیکیاں اور گناہ برابر ہوگئے

اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اس سرزمین میں ہمیں طویل زمانے تک کافروں کی مشابہت سے محفوظ رکھا، یہاں تک کہ دنیا کی محبّت ہم  پر غالب آگئی، ہم کافروں کے ساتھ ملنے لگے اور ہم میں سے کچھ لوگ مغرب کی شہری زندگی اور ان کی ترقی سے مغلوب ہوگئے، پھر کافراُمّتوں کی مشابہت اور ان کی فرمانبرداری کی علامات نمایاں ہونے لگ گئیں جو لوگوں کی زندگی اور ہمارے معاشرے میں بھی ظاہر ہوگئیں۔ ہم نے اپنے مردوں، عورتوں، چھوٹوں اور بڑوں  کو دیکھا کہ انہوں نے مغرب اور ان کی چیزوں کو  رہنما بنا لیا ہے۔  وہ ان سے  لباس، فیشن، کھانے پینے، اور  بالوں کی ترتیب اور انہیں کاٹنے میں ، یہاں تک کہ افکار اور خیالات میں بھی ان کی طرف سے آنے والی نئی نئی چیزوں اور نت نئے طریقوں کو جلدی سے قبول کررہے ہیں۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔  

ہم ابھی اس اندھیری دہلیز کے شروع میں ہے جس کا انجام دین کا ضیاع اور اس کی علامتوں کا ختم ہونا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بہت خطرناک معاملہ ہے، اس کی تلافی،  اُمّت کو اس کے نقصانات سے بچانے کی کوشش کرنے، اس کے أسباب کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنے اور اُمّت کو اس سے ڈرانے کی کوشش کرنا لازم ہے، کیونکہ ’’جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہوتا ہے۔‘‘ علّامہ ابنِ قیّم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’جس شخص نے انگریزوں کی ان کے لباس، ان کے انتظام اوران کے معاملات میں مشابہت اختیار کی تو وہ بغیر کسی شک کے انگریزاور غیر مسلم  ہے، اگرچہ وہ یہ خیال کرے کہ وہ مسلمان ہے۔‘‘

اے مؤمنو!

        یہ لگام جس کی اُمّت تکلیف اٹھارہی ہےاس کے بہت سارے اسباب ہیں۔ میں ان میں سے کچھ کو ذکر کرتا ہوں تاکہ ہم انہیں پہچان کر ان کے ازالے کی کوشش کریں۔

        مسلمانوں کے درمیان کافروں کی پیروی اور  ان کی مشابہت اختیار کرنے کا سب سے اہم سبب  کتاب اللہ اور سنّت کو تھامنے میں مضبوطی کا نہ ہونا ہے جو عزّت کی بنیاد اور کرامت جاری ہونے کا سرچشمہ ہیں۔ ہماری اُمّت کو عزّت اس اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طاقت کی  مدد سے حاصل ہوئی ہے جو بڑی قوّت اور بڑے اقتدار کا ملک ہے۔ جب بھی اُمّت اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی بندگی اور رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کو مضبوطی سے پکڑے گی وہ اونچی،  باعزّت اور بلند ہوگی اور ترقی حاصل کرے گی۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((حالانکہ عزّت تو اللہ ہی کو حاصل ہے، اور اُس کے رسول کو، اور ایمان والوں کو۔))

اس عزّت کو نہ شہری زندگی کی پسماندگی ،  نہ علمی بحث و مباحثہ، نہ فوجی شکست اور نہ مادی انحطاط اٹھا سکتا ہے، بلکہ اگر ہم نے اپنے ایمان  میں  اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تصدیق کی اور اس کی عبادت میں سچے ہوئے تو ہم اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی وجہ سے باعزّت رہیں گے ۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: (((مسلمانو!) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین ہو۔ اگر تم واقعی مؤمن ہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔))

میرا مرتبہ اور غرور زیادہ ہوگیا

                تیرے ارشاد: ’’ اے میرے بندو‘‘  میں داخل ہونے کی وجہ سے

        میں اپنے پاؤں سے ثریّا ستارے کو روندنے والا تھا

                اور یہ بات بھی باعث ِ شرف ہے کہ أحمد ﷺ میرے نبی ہیں

        اّمّت میں کافروں کی مشابہت کے عام ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب ہمارے کافروں سے روابط ہیں اور ان کے ہمارے ساتھ روابط ہیں۔ ہمارے کافروں کے ساتھ روابط ان کے ملکوں کی طرف مسلمانوں کے سیرو تفریح، تجارت یا اس کے علاوہ دوسرے اسباب کے لئے بہت زیادہ اسفار کی وجہ ہیں۔ عام طور سے وہ لوگ جو سفر کرتے ہیں ان کے پاس ایسا علم اور ایمان نہیں ہوتا جس کے ذریعہ وہ شبہات اور نفسانی چیزوں سے بچ سکیں، لہٰذا اس طرح کے بہت سارے لوگ کئی طرح کے فتنوں میں پڑجاتے ہیں جس کا سب سےکم درجہ ان کی پیروی اور ان کی مشابہت ہے۔

        ہمارے ان کے ساتھ روابط میں سے یہ بات بھی ہے کہ:  ہماری ان چیزوں پر بہت زیادہ توجّہ ہے جو پڑھے جانے والے، سنے جانے والے اور دیکھے جانے والے نشرو اشاعت کے ذرائع کے ذریعہ ان کی طرف سے صادر ہوتی ہیں۔ٹیلی وژن، براہِ راست نشریاتی چینلز اور ان کے علاوہ دیگر ذرائع وہ باتیں تیزی سے قبول کررہے ہیں جو کافروں  کے نشرو اشاعت کے ذرائع کفر، فساد،  قتل وغارت اور لادینی  کے پروگراموں  کے ذریعہ پھینکتے ہیں۔ ہمارے پڑھنے والے حضرات وہ چیزیں نگل جاتےہیں جو ان کے وہ رسائل اور طبع شدہ کتابیں صادر کرتی ہیں جو ان کی عبادت، ان کی سوچ اور ان کے اخلاق کو پھیلاتے ہیں۔ ہماری خواتین اس فیشن میں قید ہیں جو ماڈل اور ڈیزائن کے بدنام مغربی فیشن کے اداروں سے جاری ہوتے ہیں۔

        کافروں کے ہمارے ساتھ تعلقات اس وجہ سے بھی ہیں کیونکہ ان کفار کی ہیبت ناک تعداد ہمارے درمیان ہمارے گھروں، بازاروں، تجارت کی جگہوں اور ہمارے تعلیمی اداروں میں ہوتی ہے۔ ان لوگوں کی اپنے اخلاق کو پھیلانے، اپنے عقائد کی اشاعت اور اپنی سوچ کو عام کرنے میں بہت زیادہ تاثیر ہے۔ ہم میں سے ہر ایک سے ایسے لوگوں کے ہمارے درمیان وجود کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ انہیں خوش آمدید کہنے والا، ان کے لئے رعایتیں اکھٹی کرنے والا اور ان کے ساتھ معاملات کرنے والوں سے پوچھاجائےگا۔’’آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک  سے اس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘

        اس لاعلاج لگام کے اسباب میں سےیہ بات بھی ہے کہ معاملوں کی دیکھ بھال کرنے والے اپنی اولادوں، اپنے اہل وعیال اور ان لوگوں کی تربیت سے غافل  ہیں جنہیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ان کےماتحت کیا ہے۔ وہ ان لوگوں کی حفاظت اور ان کےدینی حقوق کی ادائیگی بھول گئے ہیں، وہ دینی حقوق جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کےاس ارشاد سے نکلتے ہیں: ((اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ اس پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرّر ہیں جو اللہ کے کسی  حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے  ہیں جس کا انہیں حکم دیاجاتا ہے۔))

        لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی اولاد اور اپنےاہل وعیال کی دیکھ بھال کریں اور ان کے کاموں کی نگرانی کریں اور ان سے ہر فساد پھیلانے اور مغربی بنانے والے ذریعہ کو دور کریں۔

دوسرا خطبہ:

أما بعد!

        اے مؤمنو! کافروں کو مشابہت کے وہ طرح طرح کے طریقے جن میں کچھ مسلمان پڑگئے ہیں ان  میں  کافروں کی خوشی اور ان  دینی اور دنیاوی پروگراموں میں ان کی پیروی ہے، جیسے سالگرہ، وطن کی سالگرہ، جلسے اور باربار آنے والے پروگرام جو سال میں ایک دن ہوتے ہیں، جیسے نئی باتوں اور بدعتوں  میں سے مدر ڈے، یا مزدور ڈے، یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا دن یا  نئے سال کا جشن۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان کی عیدوں میں ان کی پیروی اور اسے کسی کام کے ساتھ خاص کرنا دو برائیوں کو جمع کرتا ہے:

        پہلی برائی یہ ہے کہ یہ اس مشابہت میں سے ہے جس کے حرام ہونے پر کتاب اللہ، سنّت اور علماء کا اجماع دلالت کرتا ہے۔

        دوسری برائی یہ ہے کہ یہ بالکل نئی بات اور بدعت ہے۔ خوشی منانا شریعت کا ایک حکم ہے اس  میں اتباع ضروری ہے نہ کہ نئی باتیں ایجاد کرنا۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہمارے یعنی مسلمان اُمّت کے لئے وہ عیدیں جائز قرار دی ہیں جو کافروں کی عیدوں کے مقابلہ میں غنیمت اور کافی ہیں۔

        کافروں کی عیدوں اور میں حاضر ہونے کی ممانعت کے بارے میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا وہ ارشاد ہے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندوں کی خوبی میں آیا ہے: ((اور (رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے۔)) بہت سارے اہلِ علم نے آیت میں ناحق کاموں کی تفسیر مشرکین اور کافروں کی عید سے کی ہے۔ رسول  اللہ ﷺ نے بھی کافروں کی عیدوں میں جمع ہونےسے منع فرمادیا تھا۔ حضرت أنس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس مدینہ تشریف لائے اور اہلِ مدینہ کے دو دن تھے جن میں وہ کھیلا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ دو دن کیا ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ہم جاہلیت میں ان دو دنوں میں کھیلا کرتے  تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تمہیں ان دو دنوں سے بہتر دو دن عطا کردیئے ہیں وہ عید الأضحیٰ اور عید الفطر کے دن ہیں۔‘‘

        صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی کافروں کے خوشی کے موقعوں پر حاضر ہونےسے منع فرمادیا تھا اور ان سے بچنے کا حکم دیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں: ’’مشرکین کی عید کے دن ان کے کنیسہ میں داخل نہ ہو، کیونکہ ان پر ناراضگی نازل ہورہی ہوتی ہے۔‘‘

        سلف صالحین سے کافروں کی عیدوں میں جانے سے ممانعت کے بارے میں بہت ساری روایات منقول ہیں۔ لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ اس سے بچیں اور ڈریں اور ان کی خوشی کے اظہار اور اس کے بارے میں جلسے کرکے ان کی مدد نہ کریں، جیسا کہ بعض ادارے اور کمپنیاں کچھ جلسے منعقدکرکے یا ان کے کارکنان اور کام کرنے والوں کو سندیں اور ان کے علاوہ چیزیں دے کر کرتے ہیں۔

        جیسا کہ ہم پر یہ بھی واجب ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے لئے انہیں ان کی عید کے مواقع پر مبارک باد دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ بہت بڑے گناہوں میں سے ہے۔ علّامہ ابنِ قیّم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’رہا کافروں کے مخصوص تہواروں کی انہیں مبارک باد دینا تو یہ بالاتفاق حرام ہے، جیسے انہیں ان کی عید اور روزے کے مبارک باد دی جائے اور کہیں: تمہیں عید مبارک ہو، یا یہ عید تمہارے لئے خیر اور خوشی کا باعث ہو اور اس طرح کے الفاظ۔ اس وجہ سے اگرچہ ان کا کہنے والا کافر نہیں ہوتا، لیکن یہ حرام کام ہے، یہ اس طرح ہے جیسے کوئی انہیں صلیب کوسجدہ کرنے کی وجہ سے مبارک باد دے، بلکہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے نزدیک اس کا گناہ بہت عظیم، شراب پینے کی مبارک باد دینے، کسی جان کو قتل کرنے، بدکاری اور اس جیسے گناہ سے بھی زیادہ ناراضی کا باعث  ہے۔ بہت سارے لوگ جنہیں دین کی قدر نہیں ہوتی وہ اس میں واقع ہوجاتے ہیں اور جو اس نے کیا ہوتا ہے وہ اس کی ناپسندیدگی نہیں جانتا۔ جس شخص نے کسی بندے کو نافرمانی، بدعت یا کفر کی مبارک باد دی تو اس نے اپنے آپ کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی ناراضی اور عذاب کے لئے پیش کردیا۔‘‘

خطبة:  أزمة التقليد

ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں