×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:5296
- Aa +

خطبہ اول:

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مد د چاہتےہیں،جس کو اللہ تعالی ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ،اورجس کو اللہ تعالی کے گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔

امابعد ۔۔۔

اے اللہ کے بندوں !اللہ تعالی سے ڈرو،اور صرف مسلمان  ہونے کی حالت میں مرو،اورجان لو کہ اللہ تعالی کا تقوی اس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک شریعت کے ،اس کے فضائل اورزندگی میں ان پر واقعی عمل نہ کیا جائے ۔

اے ایمان والو!

ہم پر اللہ تعالی کے فضل میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہمارے لیے سیدھا دین بنایا ہے ،او رہمیں درمیانی امت میں پیدا کیا ہے ،جو احکام اور شریعت کےحوالے سے بھی درمیانی ہے ،آداب اور فضائل کے حوالے سے بھی درمیانی ہے ،اس پر اللہ کے لیے بہت بہت تعریف ،اورصبح وشام شکر ۔

اے ایمان والو!

اس درمیانی امت کی نشانی اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمائی ہے ،جہاں پر اللہ تعالی نے اپنے محبوب اور چنے ہوئے بندوں کا ذکیا ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ((اور خالص بندے وہ ہیں جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ تو اس میں اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل ،اور وہ ان دونوں کے درمیان والا راستہ اختیار کرتے ہیں))۔یعنی وہ لوگ اپنے واجب خرچوں میں انصاف اور درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہیں ،کمی اور زیادتی نہیں کرتے ۔

اللہ تعالی کے بندے وہ ہیں جو اپنے خرچوں میں انصاف کرنے والے ہیں ،اللہ تعالی نےجو حدود متعین فرمائی ہیں ان سے نہ تجاوز کرتے ہیں اورنہ  ان کامو ں میں کمی کرتے ہیں جو اللہ تعالی نے ان پر فرض فرمائے ہیں ۔

اے ایمان والو!

ہم روز مرہ کے معاملات میں اس صفت کو اکثر لوگوں کی زندگی میں نہیں پاتے ،اکثر لوگ فضول میں خرچی میں پڑے ہوئے ہیں ،اپنے تمام کاموں اور معاملات،مثلا کھانے اور پینے میں،کپڑوں اور سواریوں میں ،اور شہوات اور لذتوں میں اسراف کرتے ہیں۔

اے ایمان والو!

اللہ تعالی نے اپنی اکثر آیتوں میں اسراف سے منع فرمایا ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ((اور تم اسراف مت کرو ،بیشک اللہ تعالی اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ))،ایک اور جگہ پر ارشاد ہے:  ((اور تم فضول خرچی مت کرو ،بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کےبھائی ہیں ،اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے ))،ایک اورجگہ پر ارشاد ہے : ((اور پنے ہاتھ کو گردن کے ساتھ بندھا ہوا مت بناؤ اور نہ ہی بالکل کھول دو ،ورنہ تم ملامت زدہ اور حسرت زدہ بیٹھ جاوگے ))ایک اورجگہ پر ارشاد ہے :((اور ہمارا لوٹنا اللہ کی طرف ہے ،اور اسراف کرنے والے آگ والے ہیں ))۔

آپ ﷺ نے ہر معاملے میں اسراف سے منع فرمایاہے ،آپ ﷺ نے  کھانے پینے میں ،کپڑوں حتی  کے صدقے میں بھی اسراف سے منع فرمایاہے ،عمر و بن شعیب اپنے والد اور اپنے  دادا سے آپ ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں :”تم لوگ کھاؤ پیو،پہنو بغیر اسراف اور تکبر کے “آپ ﷺ نے تو وضو میں بھی اسراف سے منع فرمایا ہے ،سنن نسائی اور ابن ماجہ میں کہ  آپ ﷺ نے ہرعضو کو تین تین دفعہ وضو کرکے فرمایا :”اسی طرح وضوکرو ،جس نے اس پر زیادتی کی اس نےبرا اور ظلم کیا “۔ امام بخار ی ؒ نے فرمایا ہے کہ اہل علم نے وضو میں اسراف کرنے کو مکروہ فرمایا ہے ،کہ آپ ﷺ کے فعل سے تجاوز کیا جائے ۔

اے اللہ کے بندوں!اللہ تعالی نے تم پر اپنی بہت ساری نعمتیں مکمل فرمائی ہیں ،ان میں سے یہ ہے کہ:تمہیں فقرکے بعد غنی بنایا ،بھوک کے بعد کھلایا ،گمراہی کے بعد ہدایت دی ،تمہارے لیے خیر کےاور رزق کے  دروازے کھول دیے ،جو تمہارے خیال میں بھی نہیں تھا ،اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرو،اورجان لو یہ سب کچھ تمہیں اس کے فضل اور احسان سے بے پرواہ نہیں کرسکتا ۔

اے ایمان والو!

انسان مالداری،سامان کی زیادتی  اور مال کی زیادتی کے وقت حد سے تجاوز اور سرکشی میں مبتلا ہوجاتا ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ((ہر گز نہیں انسان سرکشی کرتا ہے جب وہ اللہ کو مستغنی دیکھتا ہے  ))اللہ تعالی نے سچ کہا ہے ،جب اللہ تعالی نے ہم پر ہرچیز کے دروازے کھول دیے ،اور بہت ساری نعمتیں ہم پر مسلسل جاری کیں ،تو بہت سارے لوگ اس عارضی چیز،ختم  ہونے والے سایہ کے بارے میں دھوکے میں پڑگئے ،سرکشی کی اور اللہ تعالی کی حدود سے تجاوز کیا ،اسراف اور فضول خرچی کی ،اور اللہ تعالی کے مال میں بغیر حق کے تصرف کیا ،تو اس دنیا میں اسراف اورفضول خرچی کا چرچا ہوا،۔

مثال کے طور پر بہت سارے لوگ آج کھانے اور پینے میں اسراف کررہے ہیں ،آپ لوگوں کو یکھیں گے کہ جن کے دسترخوان پر مختلف قسم کے کھانے اور پینے ہوتے ہیں،جو پوری ایک جماعت کے لیے کافی ہوتے ہیں،اس کے باوجود وہ تھوڑا سا کھاتے ہیں ،باقی جو بچ جائے اس کو فضول ضائع کردیتے ہیں۔

ہائے افسوس،کیا یہ اسراف کرنے والے بھول گئے یا قصدا خود کو بھلادیاکہ کہ بعض لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ،اتنا بھی نہیں پاتے  جس سے اپنی بھوک کی گرمی ختم کرسکے ،اور پنی پیاس بجھا سکے ؟

کیا یہ لوگ اللہ تعالی کا یہ قو ل بھول گئے ؟((پھر اس دن تم سے ہر نعمت کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا))

ابن قیم ؒ نے کہا ہے کہ:جن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا وہ دو قسم کی ہیں :ایک قسم یہ ہے کہ:جس کو صحیح جگہ سے لیا جائے اور صحیح جگہ  استعما ل کیا جائے ،اس کےشکر کے بارے میں پوچھا جائے گا،دوسری قسم وہ ہے کہ:جس کو غلط جگہ سے لے کر بغیر حق کے استعمال کیا جائے ،اس کے لینے اور استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

اے ایمان والو!

مذموم اسراف وہ ہے جو بہت سارے بے وقوف لوگ لہو ولعب اور فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں،آپ ان کو دیکھیں گے کہ:اپنی عمر اور اپنی فکر لہو ولعب میں ضائع کررہے ہوں گے ،نہ تو دینا کے کسی کام سے فائدہ حاصل کریں گے اور نہ آخر ت کا کوئی کام جو نجات دے سکے ۔

بس غفلت ،گمراہی،ٹیڑھا پن،معیشت کے اسباب کا ضیاع،معاد کے اسباب کو ختم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا ،لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم۔

اے اللہ کے بندوں !اسراف اورفضول خرچی میں سے یہ بھی ہے کہ:دنیاوی اسباب اورسامان جن پر انسان کی زندگی موقوف ہے ان کے استعمال کرنے میں اسراف کیا جائے ،مثلا پانی ،بجلی وغیرہ،پانی جب موجود ہوتا ہے تو سب سے سستالگتا ہے اور جب موجود نہیں ہوتا تو سب سے مہنگا لگتا ہے،جس کو بڑے بڑے کاموں میں بغیر حساب کے ضائع کیا جاتا ہے ،ایسا لگتا ہے جیسا کہ ہم ایسی نہر کےپا س رہ رہے ہیں  جو کبھی نہیں رکتی اور ایسے کنویں کے پاس رہے ہیں جو کبھی خشک نہیں ہوتا ،غفلت اور بے پرواہی ہے ،اسراف اور فضول خرچی ہے ،بیشک سب سے کڑوی چیز جس سے ہم  گذر رہے ہیں یہ ہے کہ:ہم احکم الحاکمین کی شریعت کی مخالفت کررہے ہیں،آپ ﷺ نے پانی میں اسراف سے منع فرمایاہے،اگرچہ اس کا استعمال عبادت میں کیوں نہ ہو چہ جائیکہ اس کے علاوہ ہو،اے اللہ کے بندوں اللہ سے ڈرو،اور اس کام رعایت کرو،بیشک پانی کی قلت بہت سارے ملکوں کےلیے بڑا چیلنج ہے ،اگر ہم نے اس کی رعایت نہ کی تو اس کا نتیجہ بہت برا ہوگا۔

اے معزز بھائیوں !

بجلی میں اسراف سے تو بہت ہی کم لو گ محفوظ ہیں ،کتنے لو گ ہیں جو اپنے گھروں ،فیکٹریوں اور مجلسوں میں ایئر کنڈیشن  وغیر پر بجلی ضائع کرتے ہیں جو ان کی ضرورت سے زائد ہوتا ہے ۔

اور کتنے ہیں جن کی لائٹ دن اور رات جلتی رہتی ہے ،اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو،کیونکہ اللہ اور اس کے رسول تم اس سے روکتے ہیں۔

اے اللہ کے بندوں !سب سے بڑی فضول خرچی یہ ہے کہ: اس مال کو جس کے ذریعہ اللہ نے تم پر فضیلت دی ہے اس کی نافرمانی میں استعمال کرو،اللہ تعالی تو تم پر احسان کرے اور تم اس کی نافرمانی کرو،اللہ تعالی کا ارشاد ہے ((اور تم فضول خرچی مت کرو ،بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ،اور شیطان اپنے رب کا نا شکرا ہے ))،قتادہؒ نےکہاہےکہ:تبذیر کہتےہیں کہ:اللہ کی نافرمانی میں مال خرچ کرنا،جو ناحق اور فساد میں ہوتا ہے ۔

خطبہ ثانی:

اما بعد ۔۔۔

بیشک اسراف اور فضو ل خرچی ہلاک کرنے والی بیماری ہے ،جو امتوں اور معاشروں کو تباہ کرتی ہے ،مال واسباب کو ہلا کرتی ہے ،وہی ہر طرح کی سزاؤں اور آزمائشوں کا سبب ہے۔

اے اللہ کے بندوں !اسی وجہ سے اسراف  تنعم پرستی کا سبب ہے جس کی اللہ نے مذمت کی ہے ،اور اس پر عذاب کی دھمکی دی ہے ،اللہ تعالی کا ارشا دہے:  ((اور بائیں ہاتھ والے کیا ہیں بائیں ہاتھ والے ،وہ آگ اور کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے ،اور لو کے سائے میں ہوں گے ،نہ ٹھنڈا اور نہ عزت والا ہوگا،بیشک وہ اس سے پہلے تنعم پرست تھے ))ابن کثیر ؒ نے کہاہےکہ:وہ لوگ دنیا میں تنعم پرستی کرنے و الےاوردنیا کی لذتوں میں مگن تھے ،اے اللہ کے بندوں !تنعم پرستی سے بچو،کچھ  دنیا میں  لباس پہنے والے آخرت میں ننگے ہوں گے ۔

اے ایمان والو !

اسراف اور فضو خرچی تکبر اور زمین میں سر کشی کا سبب ہے ،آپ ﷺ کا ارشا دہے :”کھاؤ اورپیواور بغیر اسراف اور تکبر کے صدقہ کرو“حدیث اس پر دلالت کررہی ہے کہ اسراف تکبر کا لازم ہے ،اس لیے کہ تکبر فضیلت سے پیدا ہوتا ہے ،جو انسان اپنے نفس میں دیکھتا ہے ،اللہ تعالی کا ارشا دہے :((ہر گز نہیں انسان سرکشی کرتا ہے یہ کہ اس نے اپنے رب کو بے نیاز دیکھ لیا ))۔

اے اللہ کے بندوں !اسراف اور فضول خرچی مال ضائع کرنے او رہلاک کرنے کا سبب ہے ،کتنی بڑی بڑی دولتوں کو اسراف نے ہلا ک کردیا،اور برے انتظام نے فنا کردیا۔

اے اللہ کے بندوں !اللہ سے ڈرو،بیشک اللہ تعالی نے تم کو مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے ،مغیرۃ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :ہم نے آپ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ:”اللہ تعالی نے تین چیزوں کو تمہارے لیے ناپسندفرمایا ہے :فضول باتوں کو،مال ضائع کرنے کو  اور زیادہ سوالات کرنے کو“۔

اسراف مال ضائع کرنا ہے ،اورمال میں بغیر حق کے تصرف کرنا ہے ،آپ ﷺ کا ارشا دہے :”بیشک کچھ لوگ مال میں بغیر حق کے تصرف کرتے ہیں ،ان کے لیے قیامت کے دن آگ ہوگی “یہی بات اللہ تعالی نے ارشاد فرمائی ہے ((اور بیشک اسراف کرنے والے آگ والے ہیں ))۔

اے اللہ کے بندوں !اسراف دنیا اور آخرت میں گمراہی کا سبب ہے ،اورمعیشت اور آخرت کے لیے ہدایت نہ ہونے کاسبب ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ((بیشک اللہ تعالی اسراف کرنے بڑے جھوٹے کو ہدایت نہیں دیتا ))ایک اور جگہ اشا د ہے :((کیا ہم تم سے در گذر کردیں اس حال میں کہ تم اسراف کرنے والے ہو))،ایک اورجگہ ارشاد ہے:((اسی طرح اسراف کرنے والوں کےلیے وہ کام خوبصورت بنائے گئے ہیں جو وہ کرتے ہیں))۔

 اے ایمان والو!

اسراف کرنے والوں کے لیے اللہ تعالی کی سزاؤں میں سے یہ بھی ہے کہ ان کو شیطان کا بھائی بنایا ہے ،اللہ تعالی کا ارشا دہے :((بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں ،اورشیطان اپنےرب کا ناشکر ہے ))۔

اے اللہ کے بندوں !اللہ سے ڈرو،اور ہرظاہر ی اورباطنی گناہ چھوڑ دو،اور جان لو کہ اسراف ان تمام حدود سے تجاوز کرتا ہےجو اللہ تعالی نے اپنے بندو ں کےلیے مقرر کی ہیں اور ان کا حکم دے کر ان کو شریعت بنایا ہے ،چاہے و ہ خرچ میں سے ہو یا اس کے علاوہ ،اے اللہ کے بندو ں ہر طرح کے اسراف سے توبہ کرو،کیونکہ اللہ تعالی نے تمہیں اس کی دعوت دی ہے ،اللہ تعالی کا ارشا دہے: ((میرے ان بندوں سےکہہ دیجیے  جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایو س مت ہو جانا ،بیشک اللہ تعالی تمام گناہوں کو معاف کرتا ہے ،بیشک اللہ تعالی بہت بخشنے بہت مہربان ہے ،او ر اپنے رب کی طرف رجو ع کرو اور اسی کی فرمانبرداری کرو اس سے پہلے کہ تمہارے پاس اللہ کا عذاب آجائے پھر تمہار ی مدد نہ کی جائے ))۔

اے اللہ کےبندے !اللہ سے ڈر،تفریط او ر کمی سے توبہ کر،اور سوال کےلیے جواب تیا کر،اللہ تعالی تجھ سے اس مال کے بارے میں پوچھے گا،کہ کہا ں سے کمایا او رکہا ں خرچ کیا ؟

خطبة : الإسراف والتبذير

ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں