×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

مکتبہ / جمعہ کے خطبہ جات / ہجری تاریخ کی ابتداء ،اس کےچھوڑ نے کا خطرہ اور عاشوراء کی فضیلت

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3399
- Aa +

خطبہ اول:

تمام تعریفیں اللہ تعالی کےلیے ہیں  ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں،جس کو اللہ تعالی ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ،اور جس کو اللہ تعالی گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ،او رمیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔

اما بعد ۔۔۔

اے ایمان والو!

اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ،یعنی اس کے حکموں کو پورا کرنا اور منع کردہ چیزوں سے رکنا،بیشک یہ پچھلے اور اگلوں کے لیے اللہ تعالی کی وصیت ہے ،اللہ تعالی کا ارشادہے:  ((ہم نے تم سے پہلے  اہل کتاب کو وصیت کی تھی اور تمہیں بھی کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو))۔

اے ایمان والو!

اللہ تعالی نے  بہت ساری حکمتوں اور فوائد کے لیے سورج اورچاند پیدا کیے ہیں ،جن کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب کی مختلف جگہوں پر بیان فرمایا ہے ۔

ان حکمتوں اور فوائد میں سے یہ ہے کہ:لوگ ان کے اختلاف ،نتیجے اور چلنے سے سالوں اور حساب  کی  گھنتی کی منزلیں جان لے ،اور اس کو موسموں اور برجوں کی تبدیلی جان لے ،اللہ تعالی کاارشاد ہے :((ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے  ،پھر رات کی نشانی کو ہم نے مٹادیا اور دن کی نشانی کو دیکھنے کا ذریعہ بنایا،تا کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو  اور سالوں اور حسات کی گھنتی شمار کرو،اور ہر چیز کو ہم نے پوری تفصیل کےساتھ بیان کیا ہے ))ایک او ر جگہ پر ارشاد ہے :((اللہ تعالی وہ ذات ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو نور بنایا ہے ،اور منزلو ں کا اندازہ مقرر کیا ہے ،تاکہ تم سالوں اور حساب کی گھنتی شمار کرو،یہ سب کچھ اللہ حق کے ساتھ پیداکیا ہے،وہ اللہ نشانیوں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے ایسے لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں ))،ایک اور جگہ پر ارشاد ہے: ((لوگ آپ سے چاند کےبارے میں پوچھتے ہیں ،آپ کہہ دیجیے کہ وہ تو لوگوں کے لیے اور حج کےلیے اوقات ہیں ))،اللہ تعالی نے سالوں اور مہینوں کی پہچان چاند کے چلنے اور اس کی منزلوں کے منتقل ہونے پر رکھا ہے ،یہ بندوں پر اللہ تعالی کی نعمت اوراس کی رحمت ہے ،کیونکہ چاند آسمان میں ظاہر ہوتا ہے ،ہر بندہ اسے دیکھ سکتا ہے ،جو کسی حساب وکتاب کا محتاج نہیں ہے ،بلکہ ہربڑا او ر چھوٹا ،ہر شہر ی اور دیہاتی اس کو پہچانتا ہے ،بخلاف سورج کے ،اس لیے کہ اس کی پہچان حساب وکتاب کی محتا ج ہے ،جس میں تنگی اور مشقت ہے ،حساب لوگوں میں کم لوگ جانتے ہیں ،جو ایک غائب چیز ہے دیکھی نہیں جاسکتی ۔

جب یہ شریعت آسمانی اور سہولت پر مبنی ہے ،جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :((اور اس نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں بنائی))ایک اور جگہ ارشا دہے :((اللہ تعالی نہیں چاہتا کہ دین میں تم پر کوئی تنگی بنائے ))ایک اور جگہ ارشاد ہے:((اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے ،تنگی نہیں چاہتا ))اللہ تعالی شرعی نے حساب جس کے ساتھ عبادت متعلق ہے،چاندکےچلنے پر رکھا ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ((لوگ آپ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں  آپ کہہ دیجیے وہ تو لوگوں اورحج کے اوقات ہیں ))یہ بڑی نشانی ہےجو لوگ آسمان میں دیکھتے ہیں ،چاند مہنیے کے شروع میں چھوٹا سا ظاہر ہوتا ہے ،پھر درمیان میں بڑا ہو کر مکمل ہوجاتا ہے ،پھر کم ہونا شروع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ آخر تک پہنچ جاتا ہے ،اور اسی طر ح سور ج کے بدلنے کے اوقات ہیں ،جن کے ذریعے لوگ اپنی عبادات ،یعنی روزہ،حج ،زکاۃ  اور کفارات کے اوقات ،اسی  طرح سنتوں اور فرائض کے اوقات پہچانتے ہیں ،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”ہم ان پڑھ امت ہیں ،ہم لکھ سکتے ہیں اور نہ پڑھ سکتے ہیں ،مہینہ اس طر ح اور اس طرح ہوتا ہے “یعنی کبھی انتیس دن کا او رکبھی تیس دن کا ہوتا ہے ،جیسا کہ آپ ﷺ کارشاد ہے :”مہینہ انتیس راتوں کا ہوتا ہے ،تم روزہ نہ رکھو جب چاند نہ دیکھو،اگر تم پر مطلع ابر آلود ہوجائے تو تیس کی گھنتی پوری کرلو))۔

اللہ تعالی روزہ اور افطار میں مدار رؤیت کو بنایا ہے ۔

عبادات اور شریعت جوسارے انبیاء لے کر آئے ہیں ان میں مدار چاند کا تھا ،لیکن یہودیوں اور عسائیوں نے اس کو تبدیل کردیا تھا۔

اے ایمان والو!

عرب لوگ زمانہ جاہلیت میں اپنی تاریخ کا اعتبار  بڑے حاثات  ،واقعات کےساتھ کرتے تھے ،اور یہی ترتیب آپ ﷺ ،حضر ت ابوبکر صدیق اور عمر رضی اللہ عنہما کے ابتدائی دور میں بھی رہی،پھر خلافت وسیع ہو نے کے ساتھ تاریخ کے اسباب کی بحث شروع ہوگئی،جس کے ذریعہ لوگ کام کرتے اورجمع ہوتے تھے ،پھر حضرت عمر نے لوگوں کو ہجرت کے سولہ یا سترہ سال جمع کیے ،ان کےساتھ مشورہ کیا کہ تاریخ کی ابتداء کہا ں سے ہوتی ہے ؟ان میں سے بعض نے کہا کہ:آپ ﷺ کی بعثت سے ، بعض نے کہاکہ:آپ ﷺ کی وفات سے ،عمر نے کہا کہ:آپ ﷺ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجر ت سے ،تو سب نے اس پر اتفاق کیا ،پھر انہوں نے اس بات میں مشورہ کیا کہ سال کس مہینے سے شروع ہوجائے ،تو اس پر اتفاق ہوا کہ محرم سال کا پہلا مہینہ ہو۔

بعض اہل علم نے کہا ہےکہ:صحابہ نے ہجری تاریخ کو اللہ تعالی کے اس قول سے لیا ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہ:ے((البتہ جس مسجد کی بنیاد پہلے دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے وہ زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوجائیں ))۔

بہرحال جو بھی ہوا ،اس وقت سے آج تک یہ تاریخ امت مسلمہ میں رائج ہے ،اور تاریخ کی ابتداء مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت سے ہوئی ہے ،اسی کے ذریعہ امت مسلمہ دوسری امتوں سے جدا ہے ۔

جب دنیا قائم ہوگئی تو وہ فخرکرتے ہوئے شمار کرنے لگی اور ہماری روشن تاریخ کی ابتداء ہجرت سے ہوئی ہے ۔

جب امت میں ضعف وکمزوری اور سستی شروع ہوگئی،اور اس پر دشمن مسلط ہوگئے ،جن کی دم منافق ہیں ،انہوں نے اس کو پور ی طرح ٹکڑے ٹکڑے کردیا،امت کی  وہ بڑی چیزیں جو ختم ہوگئی ہیں ان میں ایک اسلامی ہجری تاریخ بھی ہے ،امتیوں نے بہت ساری خیر کی چیزوں کو حقیر چیزوں کےساتھ تبدیل کردیا ،تو ہجری تاریخ اجنبی بن گئی،اور عیسائی مغربی تاریخ مشہور ومعروف ہوگئی۔

اور اس تاریخ پر بہت سارے مفاسد مرتب ہوگئے  جن میں سے کچھ یہ ہے :

امت کےبیٹوں نے اپنی  اور اپنے اپاء واجداد کی تاریخ اور ان کی ثقافت چھوڑ دی،کوئی عقل مند اس میں شک نہیں کرسکتا کہ کوئی قوم اس وقت تک نہ اپنا مستقبل درست کر سکتی ہے اور نہ ماضی جب تک اس کو اپنی تاریخ کی معرفت نہ ہو،جب تک وہ اپنی ناریخ کا احاطہ نہ کریں ،او راس سے فائدہ حاصل کرنے پر حریص نہ ہو۔

امت اپنی تاریخ سے جدا ہونےکے بعد افواہوں میں پڑ گئی،اسی وجہ سے دشمن اپنی مختلف قسموں کےساتھ ،یعنی کافر،مشرک ،منافق اور کمیونسٹ یہ کوشش کررہے ہیں کہ امت مسلمہ کو ان کی تاریخ سے جدا کردیا جائے ،اس کےلیے انہوں نے مختلف طریقے استعمال کیے ہیں ،ان میں سے سب بڑا یہ ہے کہ امت مسلمہ کو اپنی تاریخ سے دور کردیا۔

انگریزی تاریخ پر اعتماد کرنے کے مفاسد میں سے یہ ہے کہ:اکثر عبادت کے شعائر اور شریعت کی نشانیاں ضائع ہوگئیں ،مثلا مسلمان کو یہ پتا نہیں ہے کہ بیض کے دن کب شروع ہوتےہیں،جن میں روزے کے بارے میں آپ ﷺ نے ترغیب دی ہے ،اور اس کو یہ پتا نہیں کہ حرمت والے مہینے کونسے ہیں  جن کی تعظیم او راحترام  اللہ تعالی نے واجب کردیا ہے،اور اس کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ حج کے مہینے کونسے ہیں ،جن میں حج کیا جاتا ہے ؟اس کے علاوہ اور عبادات کے بارےمیں۔

اسلامی تاریخ کو انگریزی تاریخ سے بدلنے کے مفاسد میں سے یہ ہےکہ اس کی وجہ سے بڑے گناہ میں لوگ مبتلا ہورہے ہیں ،جس سے اللہ اور اس کے رسو ل نے منع فرمایا ہے ،وہ کفار کےساتھ مشابہت اور او ر ان کی تقلید کرنا ہے ،جس کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ((اور جو آپ کے پاس حق آچکا ہے اس میں ان کی پیروی مت کرنا ))ایک اور جگہ پرارشاد ہے :((اور کافروں اور منافقوں کی پیروی مت کرنا ))،اورآپﷺ کا ارشاد ہے :”جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ ان میں سے ہوگا“اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے:”وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے علاوہ کسی اور کی مشابہت کرے ،یہودیوں اور عیسائیوں کی مشابہت مت کرو“۔

علماء نے مہینوں کےنام عجمی ناموں کےساتھ رکھنے سے منع فرمایاہے ،یہ بات امام مجاہد اور امام احمد سے منقول ہے ،شیخ الاسلام صاحب کہتے ہیں کہ بغیر ضرورت کے مہینوں کے نام عجمی ناموں کےساتھ معنی نہ جانتے ہوئے رکھنا منع ہے ،البتہ اگر علم ہو تو امام احمد کے ہاں پھر بھی مکروہ ہے ۔

انگریزی تاریخ کو بغیر ضرور ت کے اختیا رکرنا جائز نہیں ہے ،اے لوگوں اپنی امت کی نشانیوں کی پہچان کی حفاظت کرو،اور دشمن یعنی یہود،نصاری،مشرکین ،منافقین اور کمیونسٹ کی مشابہت سے اپنے آپ کوبچاؤ،کیونکہ اللہ تعالی نے تم کو اس سےسختی سے ڈرایا ہے ،اللہ تعالی کا ارشا د ہے:  ((اور جو ان کے ساتھی دوستی کرے گا وہ انہیں میں سے ہوگا))۔

خطبہ ثانی:

اما بعد ۔۔۔

اے ایمان والو!

اللہ تعالی کاارشا دہے: ((اللہ تعالی وہ ذات ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے بنایا ہے اس شخص کے لیے جو نصیحت حاصل کرنا چاہے یا شکر ادا کرناچاہے ))تحقیق اللہ تعالی نے رات اوردن کو اس طرح بنایا ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں،جو شخص گذرے ہوئے وقت سے نصیحت حاصل کرنا چاہتا  ہے اس کے لیے نشانی ہے ،یعنی ان دونوں کا مختلف ہو کر ایک دوسرے کےپیچھے آنا،اور زمانے کا قریب ہونا ،اے بھائیوں !یہ تو دنوں کا  حال ہے بس مہینوں اور سالوں کا کیاحال ہوگا؟کیا اس میں نصیحت اور غوروفکر کے سامان نہیں ہیں ؟

کیوں نہیں  اللہ کی قسم ،یہ ہم سب کےلیے دعوت ہے ،کہ ہم اللہ کی طرف توبہ کریں ،او رجو کچھ گذرا ہے اس سے سبق حاصل کریں،بیشک اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے ۔

کیا آپ عبرت حاصل کرکے گناہوں کو نہیں مٹائیں گے ،اور گناہوں پر حسرت وافسوس نہیں کریں گے

او رنئے سال کا استقبال توبہ کے ساتھ کرو،شائد کہ آپ اس کے ذریعہ سے پہلے گناہ مٹادیں

اے ایمان والو!

آپ عظیم مہینے (محرم)میں ہیں ،جس کو اللہ تعالی نے شرف بخشا ہے ،اور اس کو تمام مہینو ں میں خاص کردیاہے ،یعنی اس کی نسبت اپنی طرف کی ہے ،اس مہینے کی حرمت کی حفاظت کرو،بیشک یہ حرمت والے مہینوں میں سے ہے ،اللہ تعال کا ارشاد ہے : ((ان مہینوں میں سے چار حرمت والے ہیں،یہ سیدھا دین ہے ،ان کے بارے میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو))۔

اے اللہ کے بندوں !اس مہینے میں نیک اعمال کی طرف سبقت کرو،خاص کر روزے رکھو،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”رمضان کےبعد سب سے زیادہ فضل والا مہینہ اللہ کا مہینہ یعنی محرم ہے “ ۔

محرم کا مہینہ برکت والا امن والا ہے ،اور اس میں روزہ رکھنا سنت ہے

اس میں کثرت سے روزہ رکھو،اگر زیادہ روزے نہیں رکھ سکتے تو دس محرم کا روزہ تو ضرور رکھو،کیونکہ اس کی فضیلت عظیم ہے ،ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نےفرمایا:”میں نےآپﷺ کورمضان کے علاوہ  عاشوراء کے روزے سے زیادہ اور کسی روزے پر حریص نہیں پایا“۔

آپ ﷺ اس روزے کی ترغیب اور حکم دیتے تھے ،ابوقتادہ سے روایت ہے کہ:آپ ﷺ سے دس محرم کے روزے کےبارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :”یہ ایک سال کے گناہ معاف کرتا ہے “۔

اس روزے کا سبب یہ ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائیں تویہودیوں کو دیکھا کہ وہ اس دن روزہ رکھ رہے ہیں  آپ ﷺ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟انہوں نے کہا کہ:یہ نیک دن ہے ،اللہ تعالی نے اس دن موسی علیہ السلام  اور بنی اسرائیل کو اس دن دشمن سے نجات عطافرمائی تھی،تو موسی نے روزہ رکھا تھا ،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”میں موسی کا تم سے زیادہ حق دار ہوں ،چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم بھی فرمایا“۔

یہ ایسا دن ہےجس میں اللہ تعالی نے اپنے دوستوں اور محبوبوں کو عزت دی ہے اور اپنے اور  پیغمبروں کے دشمنوں کو ذلیل کیا ہے ،اس وجہ سے ہم اللہ کے شکر کے لیے اس دن روزہ رکھتے ہیں ،موسی کی مدد ہماری امت مسلمہ کی مدد ہے ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے :((بیشک یہ ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں بس میری ہی عبادت کرو))۔

بس جس نے لا الہ الا اللہ پڑھا،اللہ کو ایک مانا،پیغمبروں کی تصدیق کی ،اللہ کو پکار تو وہ ہم میں سے ہے او رہم اس سے ہیں ،چاہے ہم سے زمانے اور مکان کے اعتبار کتنا ہی دور کیوں نہ ہو،((او ربیشک یہ ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں بس مجھ سے ڈرو))۔

بڑے سرکش کے خلاف اس مد د کوزند ہ کرنے سے ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ:دعوت تکلیف ،جنگ اور ظلم سے شکست نہیں کھاتی ،بیشک ظلم کا نتیجہ بد ہے اور اللہ تعالی اپنے دین ،اپنی کتاب اور اپنے دوستوں کی مدد کرنے والا ہے ۔

اللہ کی قسم دعوت اذیت کی وجہ سے کبھی شکست نہیں کھاتی۔

اے ایمان والو!

تمہاری شریعت میں سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ:اللہ کے دشمنوں کی مخالفت کی جائے اور ان کی مشابہت سے بچا جائے ،اسی وجہ سے آپ ﷺ نے یہود ،نصاری اور دیگر کفار کی ہر بڑی او رچھوٹی بات میں مخالفت کرنے پر حریص تھے ،یہاں تک کہ آپ نے عاشوراء کے روزے میں بھی ان کی مخالفت کی ،عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:جب آپ ﷺ عاشوراء کے دن روزہ رکھا ،تو دوسروں کو بھی روزے کا حکم دیا  ،تو لوگوں نے کہا :یارسول اللہ ،وہ تو ایسا دن ہے جس کی یہود اور نصاری تعظیم کرتے ہیں ،تو آپ ﷺ نےفرمایا:”جب اگلا سال آئے گا تو اگر اللہ نے چاہا تو میں نو محرم کو بھی روزہ رکھوں گا“پھر اگلا سال آنے سے پہلے ہی آپ ﷺ کا وصال ہوا۔

اے ایمان والو!اس مہینے کی دس تاریخ کو روزہ رکھو،اور نو تاریخ کو بھی رکھا کرو،جیسا کہ آپ ﷺ نے ارادہ فرمایاتھا۔

خطبة: مبدأ التاريخ الهجري وخطورة تركه وفضل عاشوراء

ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں