×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3259
- Aa +

خطبہ اول:

تمام تعریفیں اللہ تعالی کےلیے ہیں ہم اس کی تعریف کر تے ہیں اور اسی مدد چاہتے ہیں ،جس کو اللہ تعالی ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا ،اور جس کو اللہ تعالی گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت نہیں دےسکتا ،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔

اما بعد۔۔۔

اے ایمان والو!میں تمیں اللہ سے ڈر نے کی وصیت کرتا ہوں ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے :((اے ایمان والو!تم اللہ سے ڈرو،اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ،تو اللہ تمہیں اپنی رحمت کے دوحصے دے گا،اور تمہارے لیے ایک نور بنائے گا جس کے ذریعہ تم چلو گے ،اور تمہاری مغفرت کرے گا ،اور اللہ تعالی بہت بخشنے والا اور بہت مہربان ہے ))۔

اے اللہ کے بندوں!اللہ سے ڈرو اور اس کا شکر ادا کرو،اللہ تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں مکمل کردے گا،اے اللہ کےبندوں !اللہ تعالی کی تم پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ تمہیں امت مسلمہ میں سے بنایا ہے ،مخلوق میں سے سب  سے بہترین حضرت محمد ﷺ کی امت میں سے بنایا،وہ جن کے ذکر کو اللہ نے بلند کردیا ہے ،اور ان سے بوجھ اٹھایا ہے ،اور ان کے مخالفین کو  رسوا کردیا ہے ،وہ رحمان کے محبوب ہیں،تمام مخلوقات کے سردار ہیں،مقام محمود اور حوض کوثر والے ہیں،اے اللہ کےبندوں !تم پر اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمتیں ہیں ،بہت بڑی رحمت اور فضل ہے ،اس پر اللہ تعالی کی بہت بہت تعریف ہو۔

اے اللہ کےبندوں اور ایمان والو!

اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو نبی امی منتخب فرمایا،اور ان کو بہت ساری خصوصیتوں اور فضیلتوں سے نوازا،پچھلوں اور اگلوں پر ان کو اونچا کیا ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ((اللہ تعالی ہی خوب جانتا ہے کہا ں اپنی رسالت بنانی ہے ))۔

ان کی عظیم خصوصیتوں اور واضح نشانیوں میں سے معراج کا واقعہ ہے ،پہلے مسجد حرام سے مسجد اقصی تک ،پھر دوسرے آسمان تک ،وہ عجیب سفر اور بڑی نشانی ہے ۔

آپ ﷺ ہجرت سے پہلے رات کو خانہ کعبہ  کے پاس حجرے میں سوئے ہوئے تھے ،ان کے پاس ایک آنے والا آیا ،سینہ مبارک کو پیٹ تک چاک کیا ،پھر ان کا  دل نکال کر حکمت اور ایمان سے بھر دیا،پھر آپ  ﷺ کےپاس ایک سفید جانور لایاگیا،جس کو براق کہا جاتا ہے ،جو اپنا قدم تاحد نگاہ رکھتا تھا،اس پر آپ ﷺ اور جبرائیل بیٹھ گئے ،یہاں تک کہ بیت المقدس تک پہنچ گئے ،بیت المقدس میں داخل ہو کر تمام انبیاء سے ملاقات کی،اور دورکعتیں پڑھائیں،پھر آپ ﷺ مسجد اقصی سے نکل گئے ،جبرائیل ان کےپاس ایک برتن لائے جس میں شراب تھی،اورایک برتن لائے جس میں  دودھ تھا ،آپ ﷺ نے دودھ کو اختیار فرمایا،توجبرائیل نے ان سے کہا ،آپ نے فطرت کو اختیار کیا ،پھر جبرائیل ان آسمانی دنیا کی طرف چڑھایا،تو جبرائیل نے دروازہ کھولنے کا کہا ،پوچھاگیا :آپ کون؟ جواب دیا میں جبرائیل،پوچھا گیا آپ کےساتھ دوسرے کون ہیں ؟جواب دیا :محمد ﷺ ،کہا ٹھیک ہے ،کہا گیا خو ش آمدید،اچھا ہے آنے والا اور دروازہ کھول دیا گیا ،آپ ﷺ نے وہاں پر حضرت آدم کوپایا،ان کو سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیا،اورکہا :خوش آمدید ہو ،نیک بیٹے اور نیک نبی کےلے ،پھر ان کو دوسرے آسمان کی طرف چڑھایا گیا،وہاں پر آپ ﷺ کےلیے دروازہ کھولا گیا،وہاں پر عیسی بن مریم اوریحی بن زکریا  کےساتھ ملاقات ہوگئیٍ،ان دونوں نے خوش آمدید کہا اور دعائیں دیں،پھر آپ کو تیسرے آسمان کی طرف چڑھایا گیا وہاں پر یوسف علیہ السلام کے ساتھ ملاقات ہوگئی ،جن آدھا حسن دیا گیا تھا،انہوں نے خوش آمدید کہا اور خیر کی دعا دی،پھر آپ کو چوتھے آسمان کی طرف چڑھایا گیا،وہا ں پر ادریس کےساتھ ملاقات ہوگئی،پھر آپ کو پانچویں آسمان کی طرف چڑھایا گیا ،وہا ں پر ہارون علیہ السلام کے ساتھ ملاقات ہوگئی،انہوں نے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر دی، اس کے بعد چھٹے آسمان کی طرف  ان کو چڑھا دیا  وہا ں پر حضرت موسی کے ساتھ ملاقات ہوگئی انہوں نے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر دی ،اس کے بعد ساتویں آسمان کی طرف چڑھا دیا جہا ں پر ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ملاقات ہوگئی ،جو بیت معمور کی طرف ٹیک لگا کے بیٹھا ہوا تھا،وہ ایسا گھر ہے جہا ں ہر وقت ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں ،ایک دفعہ کے بعد دوبارہ اس فرشتے کی باری نہیں آتی،پھر آپ ﷺ سدرت منتہی کی طرف چلے گئے ،جس کو اللہ کے حکم سے کسی چیز نے ڈھانپ لیا تو وہ بد ل گیا ، کوئی چیز  اس کے حسن کو بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتی،پھر اللہ تعالی نے آپ کی طرف وحی کی ،اور پچاس نمازیں فرض کیں،تو آپ موسی کے پاس اترے ،انہوں نے کہا کہ اپنےرب کے پاس جاکر کمی کی درخواست کرو،آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی،توآپ ﷺ اللہ  کے پاس گئے اللہ نے دس نمازیں کم  کردیں،آپ مسلسل کمی کی درخواست کرتے رہے یہاں تک کہ پانچ نمازیں دن اور رات میں فرض ہوگئیں ،پھر ایک آواز دینے والے نے آواز دی کہ میں نے اپنا فریضہ جاری کردیا اور اپنے بندوں سے کام ہلکا کردیا،اس کے بعد آپ ﷺ صبح سے پہلے اپنے بستر پر آگئے ۔

اے اللہ کے بندوں !یہ سب کچھ ایک رات میں ہوا،پاک  ہے اللہ کی ذات،تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں،اور اللہ سب سے بڑا ہے ،اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔

اسی رات آپ ﷺ لوٹ گئے ،جب صبح ہوگئی تو آپ نے اپنی قوم کو وہ سب کچھ بتا دیا جو اللہ نے ان کو اپنی نشانیوں میں سے دکھایا تھا،تو انہوں نے آپ کو سخت جھٹلایا،اور آپ کو اذیت دی،انہوں نے آپ سے پوچھا کہ ان کو بیت المقدس کے بارے میں بتائے ،تو اللہ نے بیت المقدس کو آپ کےسامنے کردیا یہاں تک کہ آپ اس کو دیکھ کر بتاتے رہے ،وہ آپ کی تردید نہیں کرسکے ،جب آپ ﷺ نے یہ واقعہ بتایا تو ابو بکر نے فورا کہا کہ آپ نے سچ کہا ،میں گواہی دیتا ہوں کہ:آپ اللہ کے رسول ہیں،آپ نے قوم والوں کو ان کے قافلے کے چلنے اور لوٹنے کے بارے میں بتایا،اور ان کو اس کے پہنچنے کا وقت بھی بتایا،لیکن انہوں نے اس کا انکار کردیا ،اور ظالم لوگ ناشکر ی کیے بغیر نہ رہ سکے ۔

اے ایمان والو۱

یہ آپ ﷺ کے آسمانوں پہ معراج کی خبر ہے ،جس میں نشانی اور عبرت ہے ،جس سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالی نے علم اور ایمان کےساتھ زندہ کیا ہے ،اورجن لوگوں کے دلو ں میں مرض ہے وہ شک میں حیران پڑے ہوئے ہیں ،وہ ان جیسے واقعات میں شک کرتے ہیں،اللہ نےسچ کہا ہے اور اللہ سے بڑا سچا کون ہوسکتا ہے ،((اور جو لوگ ایمان  لائے ہیں اللہ کی آیتوں نے ان کے ایمان میں اضافہ فرمایا،اور وہ خوش ہیں ،اور جن کے دلوں میں مرض ہے اللہ کی آیتوں نے ان کی گندگی در گندگی میں اضافہ کردیا،اوروہ کافرہونے کی حالت میں مرے ،))اے عقل ولو!عبرت حاصل کرو،اللہ تعالی نے اپنی کتا ب نے معراج کا واقعہ یوں بیان کیا ہے ((پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے ارد گرد ہم نے برکت ڈالی ہے ))۔

اللہ تعالی نے معراج کے واقعہ کی شان میں یوں ارشاد فرمایاہے: ((قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے ،(اے مکے کےباشندو!)یہ تمہارے ساتھ رہنے والے صاحب نہ راستہ بھو لے ہیں ،نہ بھٹکے ہیں،اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے ،یہ توخالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے ،انہیں ایک ایسے مضبوط طاقت والے (فرشتے )نے تعلیم دی ہے جو قوت کا حامل ہے ۔چنانچہ وہ سامنے آگیا،جبکہ وہ بلند  افق پر تھا ۔پھر وہ قریب آیا،او رجھک پڑا،یہاں تک کہ وہ کمانوں کےفاصلے کےبرابر قریب آگیا،بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک۔اس طرح اللہ کو اپنے بندے پرجو وحی نازل فرمانی تھی ،وہ نازل فرمائی۔جو کچھ انہوں نے دیکھا ،دل نے اس میں غلطی نہیں کی۔کیا پھر بھی تم ان سے اس چیز کےبارے میں جھگڑتے ہو جسے وہ دیکھتے ہیں ؟اورحقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس (فرشتے )کو ایک اورمرتبہ دیکھا ہے ،اس بیر کےدرخت پاس جس کانام سدرۃ المنتہی ہے،اسی کےپاس جنت الماوی ہے ۔اس وقت اس بیر کےدرخت پروہ چیزیں چھائی ہوئی تھیں جو بھی اس پر چھائی ہوئی تھیں۔(پیغمبر)آنکھ نہ تو چکرائی ،اور نہ حد سے آگے بڑھی۔سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا))۔

خطبہ ثانی:

اما بعد ۔۔۔

اے اللہ کے بندوں !اللہ سے ڈرو،اے عقل والو!عبرت حاصل کرو ان واضح نشانیوں اور احسانات سے جو اس واقعہ میں ہیں ،اس میں وہ چیز ہے جو عقلوں کو حیران کرتی ہے ،عقل والوں کو قیدی بناتی ہے ،اور نیک بندوں کے دلوں میں ایمان بڑھاتی ہے ۔

اے ایمان والو!

اس واقعہ میں سب سے بڑی چیز اللہ کے ہاں آپ ﷺ کا مرتبہ ہے ،محمد ﷺ اللہ تعالی کے دوست ہیں ،اللہ تعالی نے ان کو امام بنایاہے ،اوران کو اس مرتبہ تک پہنچایا جس تک پچھلے اور اگلے لوگوں میں سے آج تک کوئی نہیں پہنچا،آپ ﷺ اس جگہ تک بھی پہنچے ہیں جہاں آپ نے قلموں کی آوا ز سنی،جن کے ذریعہ سے تقدیریں لکھی جاتی ہیں،آپ ﷺ معراج کی رات جنت اور آگ بھی دیکھی ہے ۔

اس واقعہ میں تما م انبیاء نے آپ ﷺ کی نبوت کا اقرار کیا ہے ،جس کے ذریعہ انہوں نے اس عہد کو پورا کیا جس کا اللہ نے ان سے وعدہ لیا تھا۔

معراج کی رات میں اللہ تعالی نے اس امت کی فضیلت ظاہر فرمائی،یہ امت فطرت والی امت ہے ،اور اس کا دین بھی فطرت والا ہے ،کیونکہ آپ کو شراب اور دودھ میں اختیار دیا گیا،سلامتی کی فطرت  اس دین کا دودھ ہے ،آپ ﷺ کا ارشاد ہے :”ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا تھا،پھر اس ماں باپ اس کو یا تو یہودی بنادیتے ہیں،یا عیسائی بنادتے ہیں اور یا مجوسی بنادیتے ہیں“۔

اے ایمان والو!

معراج کی رات اور عزت والی جگہ میں اللہ تعالی نے اپنے نبی پر پانچ نمازیں فرض فرمائیں،یہ نمازیں اللہ تعالی نے بغیر واسطے کے براہ راست فرض فرمائیں ،یہ بات نماز کی عظیم درجے اور اس پر اللہ کی خصوصی تو جہ پر دلالت کرتی ہے ،اے اللہ کے بندوں !اللہ سے ڈرو،اورنمازوں کی پابندی کرو،جو نماز نہیں پڑھتا اس کا رابطہ اپنے رب کے ساتھ منقطع ہوجاتا ہے ،وہ عنقریب ہلاکت کو پکارے گا اور جہنم میں داخل ہوگا،اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ((تم کو کس چیز نے جہنم میں ڈالا؟وہ کہیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے ))۔

اے ایمان والو!

اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ((جب اللہ اور اس کے رسول کسی مؤمن مرد یا عورت کے بارے میں کسی چیز کا فیصلہ کریں تو پھر اس کے پاس اس معاملہ میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا ))یعنی جب اس کے پاس اللہ یا اس  کے رسول کی طرف سے کوئی خبر یا حکم پہنچ گئے تو اس کوچاہیے کہ بغیر شک کے  اس کی تصدیق کرے اور اسے تسلیم کرے ،کیسے نہ ہو اے ایمان والو!اللہ کی قسم وہ آسمانو ں اور زمین کا رب ہے ،اسی کے پاس ہر چیز کا حکم ہے ،اور اسی کے پاس تمام کام لوٹتے ہیں،وہ خوب جاننے  والا،خبر رکھنے ،طاقت ور اور غالب ہے ،اور اللہ کے رسول ﷺ سچے اور امانت دار ہیں ،وہ اپنی خواہشات سے نہیں بولتے ،بلکہ انکی ہر بات وحی ہوتی ہے ۔

اے اللہ کے بندے !شکوک ڈالنے والوں سےبچو،جو اللہ تعالی اور اس کے رسول کی خبروں کے بارے اور دین کے احکام کے بارے میں شک ڈالتے ہیں،آپ کےلیے اس امت کے صدیق یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں بہتر ین نمونہ ہے ،جب آپ ﷺ نے ان کو معراج کے بارے میں بتایا تو انہو ں فورا اپنی سچی زبان ،ثابت دل اور مضبوط ایمان کےساتھ کہا کہ:آپ نے اس کےبارے میں جو بتا یا ہے وہ سچ ہے ،تو اللہ تعالی نے ان سے راضی ہوگیا اور ان کو بھی راضی کردیا۔

اے ایمان والو!

یہ وہ بعض فائدے اور عبرتیں ہیں جو اس واقعہ سے معلوم ہوئی ہیں ،تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں اس کے احسان پر ،اور اس کے عظیم فضل اوراحسان پر اس کا شکر ہے ۔

اے اللہ کےبندوں !معراج کا واقعہ آپ ﷺ کی مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے ہوا ہے ،مؤرخین کا اس کے سال اور تاریخ میں اختلاف ہے بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ ربیع الاول میں پیش آیا ،بعض کہتے ہیں کہ:وہ ربیع الثانی میں پیش آیا،بعض کہتے ہیں کہ:رجب میں ،بعض کہتے کہ رمضان میں ،بعض کہتے ہیں کہ شوال میں ،لیکن ان اقوال کی بنیاد کوئی ایسی صحیح روایت پر نہیں ہے جس پر اعتما د کیا جائے۔

اے اللہ کے بندوں !جیسا کہ تمہیں علم ہونا چاہیے کہ اس رات میں کوئی خاص فضیلت نہیں ہے ،لہذا اس کوقیام اور جلسوں کے ساتھ خاص مت کرو،یہ سب بدعت ہے ،ہر بدعت گمراہی ہے،اس سے ان لوگوں کی غلطی ظاہر ہوگئی جو اس مہنیے (ربیع الاول)کی ساتویں شب کو جلسے وغیرہ کرتے ہیں،اللہ کی قسم اگر یہ خیر کی چیز ہوتی تو صحابہ اور ان کے متبعین ہم سے پہلے یہ کرتے ۔

اے اللہ کے بندوں !اللہ سے ڈرو،بیشک بہترین طریقہ آپ ﷺ کا ہے ،اور بدترین کام دین میں نئی چیزیں ہیں ،ہر بدعت گمراہی ہے ،تم لوگ جماعت کو لازم پکڑں،اللہ تعالی جماعت کےساتھ ہے ۔

خطبة: الإسراء

پچھلا موضوع

ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں