×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / نماز / مسجد میں دنیاوی امور کے بارے میں بات کرنے کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3149
- Aa +

سوال

مسجد میں دنیاوی امور کے بارے میں بات کرنے کا کیا حکم ہے ؟

حكم الكلام في أمور الدنيا داخل المسجد

جواب

اما بعد۔۔۔

اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کا جواب یہ دیتے ہیں:

اہلِ علم کے اس میں کئی اقوال ہیں:

پہلاقول:  یہ ہے کہ مسجد میں دنیاوی امور کے بارے میں کوئی ایسی بات کرنا جس میں کوئی گناہ نہ ہو تو وہ جائز ہے یہ شوافع اور اہلِ ظواہر کا مذہب ہے ۔

دوسرا قول:  یہ ہے کہ مسجد میں دنیاوی امور کے بارے میں کوئی ایسی بات کرنا جس میں کوئی گناہ بھی نہ ہو تو وہ مکروہ ہے یہ مالکیہ اور حنابلہ کا مذہب ہے ۔

تیسراقول:  یہ ہے کہ مسجد میں دنیاوی امور کے بارے میں کوئی ایسی بات کرنا جس میں گناہ بھی نہ ہو پھر بھی حرام ہے یہ احناف کا مذہب ہے لیکن بعض اہلِ علم نے اس کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ یہ تب حرام ہوگا جب وہ اسی مقصد کے لئے بیٹھے ورنہ اگر کسی عارض کی وجہ سے ایسا ہو تو پھر مکروہ ہے ۔اور یہ اختلاف اس صورت میں ہے جب مسجد میں یہ بات کرنا تلاوت کرنے والے ، نمازی اور عبادت کرنے والے کے لئے  باعثِ خلل اور فساد نہ بنے ۔ ورنہ میرے خیال میں اس کی حرمت میں پھر کوئی اختلاف نہیں ہے اس لئے کہ آپنے تو قرآن کی تلاوت کو بلند آواز سے پڑھنے سے منع فرمایا ہے بایں صورت کہ اس سے کسی قسم کی ایذا رسانی کا اندیشہ ہو۔جیسا کہ عبد اللہ بن عمرؓ کی حدیث میں ہے کہ آپنے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے بعض بعض پر نماز میں قرأت بلند آواز سے نہ پڑھے ‘‘۔اس حدیث کو اما م احمد ؒ نے (۵۳۲۶) میں روایت کی ہے اور امام احمدؒ کے ہاں بیاضی فروہ بن عمرو کی حدیث (۱۸۵۴۳)میں ہے اور امام مالک کے ہاں (۱۷۸) حدیث میں ہے ۔ الغرض یہ نہی کئی طرق سے وارد ہوئی ہے اور یہ صحیح حدیث ہے جیسا کہ حافظ بن حجر اور عراقی نے کہا ہے ۔

لیکن دونوں اقوال میں جو بات مجھ پر ظاہر ہوئی ہے وہ یہ کہ مسجد میں دنیاوی بات کرنا اگر عارضی طور پر ہو تو پھر یہ جائز ہے اور مساجد اس جیسی چیزوں کے لئے نہیں بنائی گئیں اور اس کی دلیل اما م مسلم ؒ کی روایت کردہ حدیث(۶۷۰) ہے جس کو انہوں نے حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ :’’ آپجس مصلے پرفجرکی نماز پڑھتے تھے اس سے اس وقت تک نہیں اٹھتے جب تک سور ج طلوع نہ ہو جب سورج طلوع ہوجاتاتو آپوہاں سے اٹھ جاتے اور اس کے بعد صحابہ آپس میں باہم بات چیت کرنے لگ جاتے جس میں وہ زمانۂ جاہلیت کے قصے بھی سناتے جس سے وہ خود بھی ہنستے اور آپبھی تبسم فرماتے ‘‘۔ اور بہت سی احادیث میں مساجد میں دنیاوی بات کرنے کی نہی بھی وارد ہوئی ہے جیسا کہ طبرانی نے اپنے معجم میں حدیث (۱۰۴۵۲)میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپنے ارشاد فرمایا :’’آخر زمانہ میں ایک ایسی قوم ہوگی جو مسجد میں حلقہ درحلقہ بیٹھے گی ان کا امام دنیا ہوگی لہٰذا ایسے لوگوں کے ہم نشین نہ ہونااس لئے کہ اللہ کو ایسے لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔ یہ حدیث ضعیف ہے ۔کتاب (العلل المتناھیۃ: ۴۱۰/۱) میں لکھا ہے کہ :’’یہ حدیث آپسے ثابت نہیں ہے اور اس حدیث کا راوی بزیع متہم بہ ہے ‘‘۔ اور دارقطنی کہتے ہیں کہ :’’بزیع متروک راوی ہے اور ان کے علاوہ یہ حدیث کسی نے بھی روایت نہیں کی ‘‘۔اور ابن حبان کہتے ہیں کہ :’’بزیع ثقہ راویوں سے بھی موضوعہ روایات ایسی نقل کرتاہے گو یا کہ وہ ان کے لئے بااعتماد ہیں ‘‘یہ (میزان الاعتدال  ۱۶/۲) میں فرمایا۔ اور ابن عدی فرماتے ہیں کہ :’’بزیع کی کئی ایسی منکر روایات ہیں جن کا اتباع نہیں کی جاسکتی ‘‘۔اور بزیع یہ ہے :ابو خلیل الخصاف الراوی عن شقیق بن سلمہ عن ابن مسعود۔

آپ کا بھائی

خالد المصلح

06/01/1425هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں