جناب من کیا یہ بات درست ہے کہ ابن زبیرؓ نے جب آپﷺ کا خون مبارک پیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ :’’لوگوں کے لئے تم سے ہلاکت ہے‘‘؟
هل هذه الرواية صحيحة؟
خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.
پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.
کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.
آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں
شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004
10 بجے سے 1 بجے
خدا آپ کو برکت دیتا ہے
سوال
جناب من کیا یہ بات درست ہے کہ ابن زبیرؓ نے جب آپﷺ کا خون مبارک پیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ :’’لوگوں کے لئے تم سے ہلاکت ہے‘‘؟
هل هذه الرواية صحيحة؟
جواب
اما بعد۔۔۔
اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کا جواب یہ دیتے ہیں:
اس قصہ کی خبر بزار، طبرانی ، حاکم اور بیہقی کے پاس حضرت عامر کے طریق سے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے آئی ہے جو کہ انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ :’’آپﷺنے حجامہ کروایا اور وہ خون مجھے دے کر ارشاد فرمایا کہ جاکر اسے کہیں دفن کرو میں نے وہ خون لے کر پی لیا اور پھر میں خدمت اقد س میں حاضر ہوا تو آپ علیہ السلام نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ اس خون کا کیا کیا؟ میں نے عرض کی کہ اسے دفن کرلیا ، آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا لگتا ہے کہ تم نے وہ خون پی لیا ہے میں نے عرض کی کہ ہاں میں نے پی لیا ہے ‘‘ ۔ اس روایت کو طبرانی ان الفاظ کی زیادتی کے ساتھ نقل کی ہے کہ اللہ کے رسول نے ان سے پوچھا کہ تمہیں خون پینے کا حکم کس نے دیا تھا ؟ لوگوں کی طرف سے تمہاری ہلاکت ہے اور تمہاری طرف سے لوگوں کی ہلاکت ہے ۔ تلخیص خبیر(۳۰/۱) میں لکھا ہے اور طبرانی نے کبیر میں اور بیہقی نے خصائص میں سنن سے اس کو روایت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس حدیث کی سند میں ہنید بن قاسم ہے جو کہ ایک مشہو ر بالعلم راوی نہیں ہے لیکن اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور ان کے علاوہ بھی یہ حدیث ایک اور راوی سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺکا خون پیااور اہلِ علم میں سے ایک جماعت نے اس کا انکا رکیا ہے جن میں امام غزالیؒ سرفہرست ہیں ، اور اس منقول میں ایسا کوئی ثقہ راوی نہیں ہے اس کے اثبات میں اس کا اعتماد کیا جاسکے ۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔
آپ کا بھائی
خالد المصلح
18/06/1425هـ
اما بعد۔۔۔
اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کا جواب یہ دیتے ہیں:
اس قصہ کی خبر بزار، طبرانی ، حاکم اور بیہقی کے پاس حضرت عامر کے طریق سے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے آئی ہے جو کہ انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ :’’آپﷺنے حجامہ کروایا اور وہ خون مجھے دے کر ارشاد فرمایا کہ جاکر اسے کہیں دفن کرو میں نے وہ خون لے کر پی لیا اور پھر میں خدمت اقد س میں حاضر ہوا تو آپ علیہ السلام نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ اس خون کا کیا کیا؟ میں نے عرض کی کہ اسے دفن کرلیا ، آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا لگتا ہے کہ تم نے وہ خون پی لیا ہے میں نے عرض کی کہ ہاں میں نے پی لیا ہے ‘‘ ۔ اس روایت کو طبرانی ان الفاظ کی زیادتی کے ساتھ نقل کی ہے کہ اللہ کے رسول نے ان سے پوچھا کہ تمہیں خون پینے کا حکم کس نے دیا تھا ؟ لوگوں کی طرف سے تمہاری ہلاکت ہے اور تمہاری طرف سے لوگوں کی ہلاکت ہے ۔ تلخیص خبیر(۳۰/۱) میں لکھا ہے اور طبرانی نے کبیر میں اور بیہقی نے خصائص میں سنن سے اس کو روایت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس حدیث کی سند میں ہنید بن قاسم ہے جو کہ ایک مشہو ر بالعلم راوی نہیں ہے لیکن اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور ان کے علاوہ بھی یہ حدیث ایک اور راوی سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺکا خون پیااور اہلِ علم میں سے ایک جماعت نے اس کا انکا رکیا ہے جن میں امام غزالیؒ سرفہرست ہیں ، اور اس منقول میں ایسا کوئی ثقہ راوی نہیں ہے اس کے اثبات میں اس کا اعتماد کیا جاسکے ۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔
آپ کا بھائی
خالد المصلح
18/06/1425هـ