×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / رمضان کے وتر کا ایک خاص طریقہ

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1791
- Aa +

سوال

ہم یونیورسٹی کے طلبا ہیں اورغیرملکی نوکرپیشہ افراد کے ساتھ نمازپڑھتے ہیں اوریہ سارے حنفی مذھب کے پیروکار ہے ان میں سے ایک حافظ قرآن ہمیں نمازپڑھاتا ہے اوروترتین رکعات اس انداز میں پڑھاتاہے کہ اس میں دوتشہد اورآخر میں سلام پھیرتا ہے۔ اوردوسرایہ کہ تیسری رکعت میں سورۃ فاتحہ اورسورۃ اخلاص پڑھ کر تکبیرکےلئے ہاتھ اٹھاتا ہےاوراس کےبعد کھڑے ہوکر دعائے قنوت پڑھتا ہے اوراس کے بعد رکوع کرتاہےاوراسطرح اپنی نماز پوری کرتا ہےتوکیا یہ طریقہ صحیح ہے؟ اور کیا اس کی کوئی دلیل ہے؟ اور ہم چاہتے ہیں کہ اہل سنت کے پیچھے ہی نماز پڑھے, ہم شافعی مذہب والوں کے لئے ان کی اقتدا صحیح ہے؟ برائے مہربانی وضاحت فرما دے

هل هذه الصفة صحيحة للوتر في رمضان

جواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ امام ابوحنیفہؒ کامذہب ہے جیسا کہ سوال میں ذکرکردہ صورت ہے اس کے علاوہ ان کےہاں دوسرےطریقہ سے وترجائزنہیں۔ لیکن امام صاحب ؒ نےاس میں تمام جمہورکی مخالفت کی ہےاور اس مذہب کےثبوت میں وہ کچھ دلائل دیتے ہیں۔

امام ابوحنیفہؒ کےدلائل :حضرت محمد بن کعب قرضیؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے دم کٹی نمازسے منع فرمایااوراس طرح کی ایک روایت میں جوحضرت ابوسعیدؓکےواسطےسےمنقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے دم کٹی نمازسے منع فرمایاوہ اسطرح کہ بندہ وترکی ایک رکعت نمازپڑھے۔

امام صاحب کے دلائل کےجوابات:پہلی حدیث جوحضرت محمد بن کعب ؓکے واسطے سےمنقول ہےاس کاجواب یہ ہے کہ امام نووی نے اسکوخلاصہ میں ضعیف قراردیااورفرمایا کہ محمد بن کعب قرظی کی جوروایت ہے وہ ضعیف اورمرسل ہے۔اورابن حزم سے محلی (3/48)میں نقل ہےکہ نبی علیہ السلام سے یہ روایت صحیح سندسے منقول نہیں۔اورامام ابن قیم نے أعلام الموقعين (2/269)میںفرمایا کہ اس حدیث کی سند نہ معلوم ہے اورنہ صحیح ہےاورنہ ضعیف ہے۔اورحدیث کی معتمد کتابوں میں اسکاذکرنہیں ملتااوراگربالفرض اس کوصحیح بھی مان لےتوامام صاحب  نےجواس سے مطلب مراد لیاہے وہ کوئی متعین نہیں۔اور اگربالفرض یہ حدیث صحیح بھی ہوپھربھی بتیرا(دم کٹی) نمازسے مراد وہ نمازہے جس کارکوع اورسجدہ پورےطورسےاطمینان سےمکمل ادانہ ہواہو"أعلام الموقعين"(2/269)۔اورابن حجر نے فتح الباری(2/486)میں لکھا ہے کہ بتیراکامطلب یہ ہے کہ ایسی رکعت کہ جس سے پہلے بھی کوئی رکعت نہ ہو۔پھریہ عام  ہےخواہ پہلے سے ملی ہویاالگ۔

اورجہمورعلماء وترکوایک سلام سے تین رکعت پڑھنے کوجائزسمجھتے ہیں جیساکہ احادیث میں اس پہ دلالت ہے۔اوربعض علماءدوسری رکعت میں بیٹھنےسے منع کرتے ہیں کیونکہ اس طرح وترکی مشابہت مغرب کی نمازسے آتی ہے اورحدیث میں اس طرح کرنے سےمنع کیاگیا ہے جیسا کہ ابوہریرۃؓ کی روایت میں ہے کہ نبی علیہ السلام نےفرمایا: "تین وترنہ پڑھو کیونکہ اس کی مشابہت نمازمغرب سے ہے بلکہ پانچ یاسات رکعت وتر کے پڑھا کرو"۔اس روایت کوحاکم اورابن حبان اپنی صحیح میں نقل کیاہے۔اوردارقطنی میں بھی اسطرح نقل ہے۔اوراس کی اسناد صحیح ہے۔اورعراقی کہتے ہیں اس کےاسناد صحیح ہےبہرحال اس حدیث میں جونہی آئی ہے اس کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں یا تو یہ کہ تین رکعت میں دوتشہد نہ کرو اوریا یہ کہ اس طرح تین رکعت پڑھنا مکروہ ہے ۔اورمیرے نزدیک یہ آخری توجیہ راجح ہےکیونکہ یہاں عددسے روکا گیا ہےاور وہ لوگ جونہی کراہت کی طرف پھیرتے ہیں تو وہ نصوص سے اس کے جواز پر دلیل ہے۔

بہرحال قنوت کا جومسئلہ ہے تو اس میں کافی گنجائش ہے کیونکہ سلف صالحین سے اس بارے میں کافی روایات منقول ہیں اسی طرح رکوع سے پہلے جو قنوت کےلئے تکبیر ہے اس کومصنف ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن مسعود کی روایت سے ضعیف سندسےنقل کیاہے۔

اور امام مالکؒ نے المدونۃ(1/192)میں اس پر نکیر فرمایا ہے: ’’قنوت فجر میں رکوع سے پہلے مشروع ہے اور اس سے پہلے تکبیر نہیں‘‘۔اور اسی طرح امام شافعیؒ سے کتاب الام(1/168)میں منقول ہے: ’’یہ تکبیرہ زائدہ ہے نہ اصل سے ثابت ہے اور نہ قیاس سے‘‘۔اورمیرے نزدیک یہ غیر مشروع ہے کیونکہ عبادت میں اصلا رائے کاکوئی دخل نہیں۔

اوریہ جوآپ نے پوچھا ہے کہ ہم شافعیوں کے لئے کیا حکم ہے کہ ان کےپیچھے اس طرح نماز پڑھے یا نہیں ۔تو اس کا جواب یہ ہےکہ آ پ انکے پیچھے نمازپڑھ سکتے ہوکیونکہ حنفیہ بھی اہل سنت میں سے ہیں اور اہل سنت کےا س طرح کے مسائل میں کافی گنجائش دیتے ہے۔ان کےپیچھےنماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ضروری ہے کہ آپ ان کی اقتداءمیں نمازپڑھے اوراسی پراسلاف کا عمل رہایہاں تک کہ نماز کے شرائط وواجبات میں بھی اختلاف ہوتب بھی اقتداکی گنجائش ہے۔ ابن قدامہؒ نےاپنی کتاب مغنی(3/23)میـں لکھا ہے کہ اگر کوئی بندہ تین رکعت وترایک سلام کے ساتھ پڑھتاہوتو اسکی اقتداء میں نماز پڑھناصحیح ہے تاکہ امام کی مخالفت نہ آئے۔اور امام احمد نے ابوداؤد کی ایک روایت میں فرمایا ہے کہ اگرکسی مسجدوالے دوسلام کےساتھ وترپڑھنے کوناپسند کرتے ہوتو اگر ان کی اقتدا میں آسانی ہوتو ان کی اقتدا میں کوئی ضررنہیں ۔اورامام احمد کامذہب یہ ہے کہ جوصبح کی نماز میں قنوت کا قائل ہے تو اس کی اقتداکی جائے اوراس کی دعاپرآمین کہاجائے ۔اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ کامذہب یہ ہے کہ امام کے وہ افعال جس میں اجتہاد کی گنجائش ہوجیسے فجر میں قنوت کامسئلہ ہےاوروترایک سلام کے ساتھ والی کوئی بات ہےتوامام کی اقتدا کرنی چاہیے اورجوقنوت کو جائز سمجھنےوالا ناجائز سمجھنے والوں کی اقتدا کرے تو بھی گنجائش ہے 'الاختيارات' ص (70)۔

اورفتاوی کبری(2/240-241)میں بھی آپ جیسے سوال کی طرح کسی سوال کے جواب میں کے آخر میں یہی جواب دیا گیا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ امام کوکوئی ایسا فعل جو احادیث سے ثابت ہو اس میں کی اقتدا کرنی چاہیے یا مذکورہ اسلوب سے کوئی وتر ادا کریں تو اس کی اتباع کرنی چاہئے۔

والله تعالى أعلم

آپ کا بھائی

خالد بن عبد الله المصلح

18/09/1424ھ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں