×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / افطاری کے وقت کا ذکر

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1323
- Aa +

سوال

کیا افطاری کے وقت کا کوئی مخصوص ذکر ثابت ہے ؟ اور کیا روزےدار اذان کا جواب دے یا اپنی افطاری کرے ؟

الذكر عند الإفطار

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ تعالی کی توفیق سے جواب دیتے ہوے ہم عرض کرتے ہے

اس مسئلہ کے دو حصہ ہیں :

پہلا حصہ : اس سوال کے متعلق کہ ( کیا افطاری کے وقت کا کوئی مخصوص ذکر یادعاءثابت ہے ؟)

ایسا کچھ ثابت نہیں سوائے جو ترمذی میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب روزہ کھولتے تو فرماتے : «ابتلت العروق وذهب الظمأ وثبت الأجر إن شاء الله»، یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اور یہ روایت ان سے مرفوع بھی اور موقوف بھی وارد ہے ،اور مرفوع روایت میں کوئی حرج نہیں  اور یہ روایت سب سے بہتر روایت ہے افطار کے وقت کے دعاوں کے باب میں

اور جہاں تک اس دعاء کی بات ہے کہ روزےدار روزہ  کھولتے وقت یہ دعا پڑھے (اللهم لك صمنا وعلى رزقك أفطرنا) یا اسکے قریب قریب کوئی دعاء تو یہ ساری دعائیں کسی صحیح سند سے ثابت نہیں اور نہ کوئی سند ان کی تقویت کرتاہے ۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ کہ اس مسئلہ میں وسعت ہے ۔ پس اگر کوئ ثابت شدہ دعا پڑھ لیں جیسے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہ حدیث میں ہے یا اسکے علاوہ جوبھی دعاء وہ چاہے تو اس مسئلہ میں وسعت ہے ۔

اور جہاں تک اس سوال کی بات ہے کہ افطار کے وقت افطاری کرنا افضل ہے یا اذان کاجواب دینا ۔تو ان دونوں مسئلوں میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔ چناچہ جب مؤذن آزان کہے تو افطاری شروع کرلے اور اسکے بعد اذان کا جواب دے ۔ افطاری شروع کرنے کا مطلب ہے کہ افطاری میں جلدی کرے کیونکہ صحيحين میں سهل بن سعد رضي الله عنه کی روایت منقول ہے حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: « جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرینگے تب تک لوگ خیر سے ہونگے »، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ افطاری میں جلدی کرنا افضل ہے

اور یہ فضیلت کب سے شروع ہوتی ہے ؟ یعنی کہ افطاری میں جلدی کرنا کب مستحب ہے اور خیر کی بنیاد ہے،جیسے کے سهل بن سعد رضي الله عنه کی روایت میں ہے ؟یہ تب ہوگا جب اس شخص کو یقین ہوجائے یا پھر غالب گمان ہو کہ سورج ڈوب گیا ہے ۔ پس اگر یقین ہوجائے یا پھر غالب گمان ہو کہ سورج ڈوب گیا ہے– اور ہم غالب گمان کا کہتے ہیں جب یقین کا امکان نہ ہو ۔ سو اس وقت اس شخص کے لیے  مستحب ہے کہ وہ افطاری میں جلدی کرے ایک کجھور یا پانی کے ساتھ  ۔ اور کوئی حرج نہیں کہ اسی دوران میں اذان کا جواب بھی دیتا رہے سو اس طرح یہ اس شخص دو حدیثوں کو ایک ساتھ جمع کرنے والا ہوگا جو ابو سعید رضي الله عنه کی روایت ہے صحیحین میں کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: «اگر تم مؤذن کو سن لو تو ویسے ہی کہو جیسے کہ مؤذن کہتا ہے»،اور سهل بن سعد رضي الله عنه کی روایت ہے کہ « جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرینگے تب تک لوگ خیر سے ہونگے »، یاد رہے کہ افطاری میں جلدی کرنا ایک دفعہ سے ہوجاتا ہے ۔ یعنی اگر وہ ٹہرا رہے اوراذان کا جواب دے اگر مؤذن اذان ٹہر ٹہر کر پڑھتا ہوتو اس وقت اذان کا جواب دے اور پھر اپنی افطاری کرے۔ اور اس مسئلہ میں بہت وسعت ہے ۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں