×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / کسی نے رمضان میں جان بوجھ کر روزہ توڑا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1386
- Aa +

سوال

کیا حکم ہے ایسے شخص کا جو جان بوجھ کررمضان میں روزہ توڑے ؟

أفطر في رمضان متعمدا

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ

اگر جان بوجھ کر روزہ توڑا ہے تو اس حال میں اللہ کے سامنے اس روزہ  پر توبہ کرے جو اس نے ترک کیا اور جمہور علماء  کہتے ہیں کہ وہ ان  دنوں کی بدلہ میں روزہ رکھے ۔ اور یہ چاروں اماموں کا مذھب ہے کہ وہ قضاء کرے ان دنوں کے بدلہ میں جن میں روزہ رکھنے میں کوتاہی کی ہے اور اس بارے میں کچھ دلائل سے دلیل پکڑتے ہیں۔

اور ایک جماعت اہل علم کی اس بات کی طرف گئی ہے کہ اس کوقضاء کا رکھنا نفع نہ دے گا۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس پرقضاء نہیں کیونکہ جو رو زے اس نے چھوڑے ہیں وہ اس کے ذمہ لازم ہیں، لیکن یہ قٖضاء جو کمی اور نقصان ہوا ہے اس کو پورا نہیں کرے گی ، کیونکہ اگر اس نے بغیر عذر کےافطار کیا تھا تو جیسا کہ ابوھریرۃؓ کی حدیث میں جو امام بخاری نے تعلیقا ذکر کی ہے کہ: نبیﷺ نے فرمایا (جس نے رمضان میں بغیر کسی عذر کے روزہ افطار کیا تو اگر اس کے بدلے وہ ساری زندگی روزے رکھے وہ اس کے لئے کافی نہیں ہے ) یعنی کہ اگر سارے سال کا بھی روزہ رکھے، الدھر  کے بارے میں کہا جاتا ہے کے دھر سال ہے اور کبھی کبھار دھر سے ساری عمر کا معنی لیا جاتا ہے ۔

اورایک قول کے مطابق یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو ایک روزہ توڑے تو اس کے بد لے ہزار روزے رکھنے ہونگے اور اس کے علاوہ بھی کئی اقوال اس بارے میں ہیں۔

تو مقصود یہ ہے کہ - اور یہ دوسرا قول ہے - نفع نہیں دیتا۔ یہ مقصود نہیں ہے کہ اس دن  کی جگہ کسی اور دن کا روزہ نہ رکھے۔

کیونکہ اللہ نے تو  یہ حکم دیا ہے کہ اس  دن کی جگہ جس دن کا روزہ  اس نے چھوڑا تھا ایک قضاء کا روزہ رکھے اگر اس نے یہ عذرکی وجہ سے چھوڑا تھا ، اللہ تعالی کا فرمان ہے(جو مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر گنتی کے روزے ہے دوسرے دنوں میں)(البقرۃ:۱۸۵) لیکن یہ مرض اورسفر کی حالت کے ساتھ مشروط  ہے ۔

جہاں تک عذر نہ ہونے کی حالت ہے تو یہ بات کہاں سے ثابت ہے کہ اس دن کی جگہ کسی ایک دن کا قضاء کرے ؟ اس وجہ سے انہوں نے کہا کہ نفع نہیں دیتا۔ اور پھراس کے لئے انہوں  نےایک قاعدہ بنایا، اور وہ یہ ہے کہ ہر وہ عبادت جس میں انسان اس لحاظ سے کمی کرتا ہے کہ اس کو اپنے مقررہ وقت سے بغیر کسی عذر کے نکال دے تو اس کو بعد میں ادا کرنا نفع نہیں دیتا۔ جیسا کہ ایک بندہ کہے کہ میری اب چٹھی ہے اور میں رمضان میں میں مشغول ہوتا ہوں تو میں رمضان کے روزے اب رکھ  لیتا ہوں۔ تو اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ کوئی بھی اس کو جائز نہیں کہے گا۔ اوربالکل اسی طرح اپنے وقت سے پہلے نماز پڑھنا پس اس طرح سے ان علماء کے قول کے مطابق عبادت کا اپنے وقت سے نکالنا نفع نہیں دیتا۔ اور یہ قول معتبر ہے اور قوی بھی ہے۔

اور اس  سےنکلنے کا کیا راستہ ہے ؟ اور یہ شخص کیا کرے؟

تو اس کےذمے لازم ہے کہ سچے دل سے توبہ کرے اور نیک اعمال زیادہ کرے اور خاص کر وہی عبادت زیادہ کرے  جس میں کوتاہی کی ہے ،پس اگر وہ کوتاہی والی عبادت نماز ہو تو کثرت سے نماز پڑھے اور اگر روزہ ہو تو کثرت سےروزے رکھے۔  یہ دوسرا قول درست ہونے کے زیادہ قریب ہے واللہ تعالیٰ اعلم ۔

اور اگر اس نےعذر کی وجہ سے روزہ توڑا تھا تو یہ ان دنوں کی گنتی کا اندازہ لگائے۔ جیسا کہ اگر کوئی رمضان میں سفر یا مرض کی وجہ سے روزہ توڑتا ہے لیکن اس کوان دنوں کی گنتی یاد نہ ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ کتنے تھے، تو اس حالت میں یقین پر اعتماد کرے ۔ اور جو تعداد زیادہ ہو وہی یقین ہے۔  پس اگراس کو شک ہو کہ پانچ ہیں یا چھ  تو چھ  ہی شمار کرے گا ۔ اور اگر یہ شخص اندازہ یا تخمینہ لگا سکتا ہو اگرچہ یہ غالب گمان سے ہو توپھر یہی  ٹھیک رہے گا انشاءاللہ۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں