×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / ہفتے کے دن خصوصی طور پر روزہ رکھنے کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1258
- Aa +

سوال

ہفتے کے دن خصوصی طور پر روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟

ما حكم إفراد يوم السبت بصوم

جواب

اما بعد۔۔۔

اللہ کیتوفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

اس بارے میں دو طرح سے بات ہو گی:

پہلی بات تو یہ کہ رسول اللہ ؐ سے صرف ہفتے کے دن کا ایک روزہ رکھنے کے بارے میں نہی صحیح طور پر وارد ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے بھی تو ہم بعض صورتوں مثلاََ عرفہ کے روزے وغیرہ کی کیا توجیہ کریں گے؟

جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے توہفتے کے دن کے روزے کی نہی کے بارے میں صماء بنت بسرؓ کی حدیث صحیح نہیں ہے، ائمہ متقدمین اور متأخرین کی ایک جماعت نے بھی یہ حکم لگایا ہے کہ اس حدیث میں اضطراب پایا جاتا ہے اور سند کے اعتبار سے یہ صحیح نہیں ہے۔ اور حدیث کے معنی اور متن کے اعتبار سے حدیث میں نکارت پائی جاتی ہے، کیونکہ معنی تو یہ بنتا ہے کہ ہفتے کا روزہ علی الاطلاق ممنوع ہے چاہے اس کا ساتھ دوسرا روزہ ملایا جائے یا نہیں،  لہذا اس بات پر اجماع منعقد ہے کہ یہ ٹھیک نہیں، اور یہ معنی غیر ثابت ہے کیونکہ بہت سی احادیث میں اس سے ایک دن پہلے کا روزہ ثابت ہے ((جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو مگر اس صورت میں کہ اس سے پہلے ایک دن روزہ رکھو یا اس کے بعد)) یہ حدیث صحیحین میں ابو ہریرہؓ سے مروی ہے اور جویریہ ؓ اور دیگر صحابہ سے بھی۔

مقصود یہ ہے کہ ہفتے کے دن کا روزہ ایک اور دن ساتھ ملا کر رکھا جائے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں بلکہ احادیث ہفتے کا روزہ دوسرے دن کے ساتھ ملا کر رکھنے کے صحیح ہونے کے بارے میں واضح ہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ حدیث مطلقاََ اس دن کا روزہ نہ رکھنے کا بھی معنی دے رہی ہے یہاں تک کہ اگر وہ کسی دوسرے روزے کے ساتھ ملا کر بھی رکھا جائے، فرض روزے کے علاوہ،لہذا حدیث میں اسناد ،معنی اور متن تینوں کے اعتبار سے اشکال ہے۔

اور جس نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے تو وہ اس کو صرف ہفتے کے دن کا روزہ رکھنے پر محمول کرتے ہیں، اور یہاں ہم یہ کہیں گے کہ حدیث کو صحیح کہنے کی صورت میں نہی کو محمول کیا جائے گا اس صورت پر کہ اکیلے ہفتے کے دن کا بالخصوص روزہ رکھا جائے، اور اگر یہ روزہ ایسے دن آ گیا جو اس شخص کے معمول میں آ رہا ہو مثال کے طور پر وہ ایک دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن نہیں اور ایسے میں ہفتے کے دن کا روزہ آ جائے یا وہ عاشوراء کا روزہ رکھتا ہے اور وہ ہفتے کے دن کا بنتا ہو یا کوئی اور ایسی صورت ہو جس کی کوئی ایسی مناسبت یا کوئی ایسا سبب ہو تو ایسی صورت میں کوئی ممانعت نہیں کیونکہ اس نے ہفتے کے دن کو عمداََ خاص نہیں کیا بلکہ کسی اور وجہ سے روزہ رکھا اور اس دن بالاتفاق آن پڑا تو اس پر نہی کے بارے میں کوئی دلیل نہیں۔

تو دونوں صورتوں میں ہفتے کے دن کا روزہ اگر بالاتفاق معمول میں آ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، معمول چاہے عرفہ کی صورت میں ہو یا ماہانہ تین روزوں کی صورت میں یا کوئی اور ایسی صورت ہو۔

راجح یہی ہے کہ کوئی کراہت نہیں اور صرف ہفتے کے دن کا روزہ رکھنے کے بارے میں کوئی ممانعت بھی نہیں کیونکہ حدیث وارد صحیح نہیں ہے


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں