×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / رمضان کے دنوں میں پچنہ لگوان

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1535
- Aa +

سوال

رمضان کے دنوں میں پچنہ لگوانے کا کیا حکم ہے؟

الحجامة في نهار رمضان

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

حجامہ یہ بدن سے کسی خاص طریقے سے خون نکلوانا ہوتا ہے جس میں چمڑے کو زخمی کرکے اس سے گندا خون چوسنا ہوتا ہے اور اس عمل کے بارے میں احادیث وارد ہوئی ہے جیسے کہ شداد بن اوسؓ اور ثوبانؓ کی حدیث ہے کہ نبینے فرمایا: (پچنہ لگانے والا اور جس کا لگوایا گیا دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) اور یہ صحیح ترین روایت ہے جو اس بارے میں آئی ہے اور اہل علم کی ایک جماعت نے اس حدیث سے یہ بات ثابت کی ہے کہ پچنہ روزے  کو توڑنے والا ہے ۔

اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباسؓ کی حدیث ہے: (نبینے پچنہ لگوایا اس حال میں کہ وہ روزے سے تھے اور احرام میں تھے) اس سے بعض اہل علم نے یہ لیا ہے کہ پچنہ لگوانا منع نہیں ہے کیونکہ نبینے پچنہ لگوایا اور آپ روزے کی حالت میں تھے جیسا کہ حدیث ابن عباسؓ میں ہے اور اگر یہ روزے کو فاسد کرنے والا ہوتا، تو آپپچنہ نہ لگواتے اس حال میں کہ آپ روزے سے تھے ۔

لہذا علماء کے اس میں کچھ مذاہب بن گئے کیونکہ اس بارے میں مختلف قسم کی احادیث آئی ہیں ۔ بعض نےکہا کہ پچنہ لگوانا روزے کو توڑنے والا ہے اور وہ روایت جس میں (آپ روزے سے تھے) آیا ہے وہ غیر محفوظ ہے اور محفوظ یہ ہے (آپحالت احرام میں تھے) اوراس وجہ سے یہ لفظ کہ (آپنے پچنہ لگوایا اور آپحالت احرام میں تھے) یہ وہی ہے جس کو شیخین نے روایت کیا ہے یعنی بخاری و مسلم نے اور امام بخاری اس زیادتی میں منفرد ہے: (آپروزے کی حالت میں تھے) ۔

اور دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ کی حدیث اجازت دینے پر دلالت کرتی ہے ۔ اور یہ ان احا دیث کو منسوخ کرنے والی ہے جس میں ہے کہ (پچنہ لگانے والے اور جو لگوا رہا ہے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) کیونکہ نبینے پچنہ لگوایا ۔ لیکن حدیث کی یہ توجیہ قوی نہیں ہے کیونکہ ان آحادیث میں تاریخ نہیں ہے یہاں تک کہ یہ کہا جائے یہ اس حدیث سے مقدم ہے، اور نسخ تاریخ کا محتاج ہے اور یہاں کوئی تاریخ نہیں ۔

اور اصل طریقہ ان آحادیث اور مسائل میں یہ ہے کہ نبیکے فعل کو حاجت کی وجہ سے اجازت دینے پرمحمول کیا جائے گا اور روکنے کو کراہت پر محمول کیا جائے گا ۔ لہذا یہ حدیث: (پچنہ لگانے والے اور جو لگوا رہا ہے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا) کراہت پر محمول ہوگا ۔ اور جہاں تک آپ کا فعل ہے تو وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اجازت ضرورت کی وجہ سے دی گئی ہے ۔ لہذا علماء کے اقوال میں سے راجح اور جس کی طرف جمہور فقہاء حنفیہ اور شافعیہ اور مالکیہ گئے ہیں وہ یہ کہ پچنہ لگوانا روزے کونہیں توڑتا البتہ یہ مکروہ ہے اور یہی صحیح ہے اور یہی حکم خون لگانے اور خون دینے میں بھی لگایا جائے گا اور خون نکالنے کی جتنی بھی صورتیں ہیں تواس سے روزہ دار کے لئے بچنا ضروری ہے لیکن اگراس میں کوئی صورت واقع ہوگئی یا اس نے کرلی تو اس سے روزے کی صحت ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔

اور حرمت کا قول والوں کےمطابق یہ جائز نہیں ہوگا اور یہ روزے کو توڑنے والا ہوگا، تو اگر کسی کو اس مسئلے کا علم نہ ہو اس سے بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ حتی کہ ان کے ہاں بھی جو یہ کہتے ہیں کہ پچنہ لگوانا روزے کو توڑ دیتا ہے ۔ کیونکہ احکام جاننے کے تابع ہوتے ہیں، لہذا راجح یہ ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں