×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / اختلافِ مطالع میں مسلمان کا موقف

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:950
- Aa +

سوال

اختلافِ مطالع میں ایک مسلمان کا موقف کیا ہوتا ہے؟

موقف المسلم من اختلاف مطالع الهلال

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

اس میں اصل بات تو یہی ہے کہ جب یہ کسی ملک میں ثابت ہو جائے تو وہ باقی اسلامی ممالک میں عام ہونا چاہئے جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابن عمرؓ کی حدیث میں آپ کافرمان ہے: ’’چاند کو دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر افطار کرو‘‘۔ یہی سنت طریقہ ہے اور یہی احناف ، حنابلہ اور اہلِ علم کی ایک بڑی جماعت کا مذہب ہے ۔

اور بعض اس میں کہتے ہیں کہ ہر ملک کا اپنا ایک مطلع ہوتا ہے لہٰذا اس اعتبار سے مطالع مختلف ہیں ، یہ شوافع اور بعض اہلِ علم کا مذہب ہے ۔

باقی فقہی پہلو سے اس مسئلہ میں بیسیوں اقوال ہیں اور ان سب میں یہی قول سب سے زیادہ واضح و روشن ہے ، اور اہلِ علم کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہ اب عملی تطبیق کے اعتبار سے ہے کہ لوگ اس میں وسعت کریں اور وہ اس طرح کہ اپنے ملکوں کے مطالع کی اتباع کریں ، پس اگر ملک میں مختص کمیٹیاں اعلان کریں کہ ماہِ رمضان آگیا ہے تو تمام ملک والوں پر وہ حکم لازم آجائے گا اور اگر وہ اعلان نہ کریں تو پھر ان پر لازم نہیں آتا ۔

اور اس طرح اس سال عراق میں پیش آیا کہ جمعہ کی شب جب سعودیہ اور اکثر مسلم ممالک میں رؤیتِ ہلال کا اعلان کیا گیا تو اہلِ عراق والوں میں سے ایک جماعت نے مجھے فون کیا اور کہنے لگے : کہ یہاں بعض لوگوں نے ماہِ رمضان دیکھا لیکن بعض مختص کمیٹیوں نے کچھ متعین کردہ اعتبارات کی بنیاد پر ان کی شہادت قبول نہیں کی ، تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ سنا ہے ؟ کہا: نہیں ، لیکن بعض ریڈیوسٹیشنز اور چینلز پر یہ اعلان کردیا گیا ہے یعنی جو مسئلہ مجھ تک پہنچا ہے وہ پوری طرح ثابت نہیں ہے ، لہٰذا اگر ایسی صورتِ حال ہو تو میری رائے ہے کہ وہ اپنے ملک کے علمائے کرام سے رابطہ کریں ، اور پھر اپنے ملک کے علمائے کرام کے کہنے پر روزہ و افطار کریں ۔

یہاں کچھ سیاسی اعتبارات بھی ہوتی ہیں جو پوشیدہ نہیں رہتیں ، پھر چاہے وہ موجودہ حکومت کے حکم سے عراق کا ایران کی طرف میلان کے ساتھ متعلق ہوں یا پھر عراق میں غیر اہلِ سنت کے وجود اختلافِ جماعات کے ساتھ  متعلق ہوں دونوں صورتوں میں بات برابر ہے ، پس یہ مسئلہ بہت ساری اشیاء پر مشتمل ہے لیکن وہ مرجع جس سے لوگ صادر ہوتے ہیں اور وہ مرجع عراق میں سنی موقف ہے اس نے یہ بتایا کہ اس نے ہلال نہیں دیکھا لہٰذا اب میری رائے یہ ہے کہ وہ جیسا کہتے ہیں اس طرح کہنے میں ان کی اتباع کی جائے اس لئے کہ ہر ملک کے اپنے علماء ہوتے ہیں اور اس طرح کے معاملات میں ان سے رجوع کیا جاتا ہے ۔

لیکن اس صورت میں بھی اگر کوئی روزہ رکھ لے تو میرا نہیں خیال کہ اس کو کوئی اشکال ہوگا ؛ اس لئے کہ اس نے اس پر عمل کیا جس پر عامۃ المسلمین اور اکثر ممالک تھے ، پس یہ مسئلہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ یہ صرف عراق کے ساتھ خاص نہیں ہے اس لئے کہ پاکستان والوں نے اور مشرقی ایشیاء والوں نے ہفتہ کے دن کو روزہ کا اعلان کیا ہے، اس طرح یہ مسئلہ ہر سال اس طرح بار بار پیش آتا ہے ، باقی عمل کے اعتبار سے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ملک والوں کی اتباع کریں ۔

اور باقی رہی بات شام کی تو وہاں بھی یہ صورتِ حال پیش آئی کہ حکومتی نظام نے اعلان کیا رمضان ہفتہ کو ہے جبکہ حکومتی نظام کے مخالف فرقے نے جمعہ کے دن کا اعلان کیا۔

باقی میری یہ رائے یہ ہے کہ حکومتی نظام کے مخالف فرقے نے جو اعلان کیا ہے وہاں کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ ان کی اتباع کریں کہ یہی علاقے کے لئے ایک حقیقی مثال ہے اور یہی روزہ و افطار میں یہی مرجع ہے


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں