ہمارے علم میں تو یہ تھا کہ نفلی روزوں میں رات ہی سے نیت کا استحضار شرط نہیں ہے بلکہ جب انسان چاہے روزے کی نیت کر سکتا ہے لیکن بعض ساتھیوں نے یہ فتوی دکھایا جس کی عبارت کچھ یوں ہے (اگر وقت زوال سے تجاوز کر جائے اور اس کے بعد آپ نیت کریں تو روزہ جائز نہیں ہے، البتہ زوال سے پہلے جائز ہو گا) یہ بھائی کہتا ہے کہ اس نے یہ فتوی ابن القیم ؒ کی کتاب زاد المعاد سے نقل کیا ہے، آپ سے درخواست ہے کہ اس مسئلہ کی وضاحت فرما دیں کیونکہ اس کی وجہ سے بعض لوگوں کے ذہن میں بہت سے اشکالات آگئے ہیں
مسألة في نية صيام التطوع