×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / البيوع / ((اور وہ شخص جو عصر کے بعد اپنا سامان فروخت کرنے کے لیے پیش کرے)) اس حدیث میں اس حکم کو مقید کرنے کی علت کیا ہے ؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1732
- Aa +

سوال

حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ (تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالی کلام نہیں فرمائے گے اور نہ ان کی طرف دیکھے گے اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا اور انکے لیے بہت درد ناک عذاب ہے: ایک وہ شخص جس کے پاس صحراء میں ضرورت سے زائد پانی ہو اور مسافروں کو نہ پینے دے ، دوسرا وہ شخص جو کسی اور کے ساتھ عصر کے بعد خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کرے اور قسم کھا لے کے میں نے یہ چیز اتنے اتنے کی خریدی ہے اور اس شخص نے اسکو سچا مان لیا جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں۔ تیسرا وہ شخص جس نے امام وقت سے دنیا کی غرض سے بیعت کی ، پس جب اسے کچھ دے تو یہ وفا کرے اور کچھ نہ دے تو بے وفائی کرے) اس حدیث میں عصر کے بعد خرید وفروخت کو کیوں مخصوص کیا ؟

حديث «وَرَجُلٌ أَقَامَ سِلْعَتَهُ بَعْدَ الْعَصْرِ...»، ما علة التقييد؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

عصر کے بعد کے وقت کی تخصیص اس لیے ہے کیونکہ اس وقت قسم سخت ہوجاتی ہے ۔ قسم کھانا کئی اسباب سے سخت ہو جاتا ہے: کبھی کسی مخصوص وقت کی وجہ سے ، کبھی کسی مخصوص جگہ کی وجہ سے اور کبھی  کسی مخصوص حالت کی وجہ سے ۔ تو قسم کا مخصوص وقت کی وجہ سے سخت ہونے میں سے عصر کے بعد قسم کھانا ہے ۔ پس عصر کے بعد جو بھی قسم کھائی جائے وہ مغلظ (سخت) ہوگی ، اوراسی لیے حضور نے اسکو حدیث میں ذکر کیا لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ حکم صرف عصر کے بعد کے وقت کے ساتھ مخصوص ہے یعنی کبھی اگر اسکے علاوہ کے وقت میں قسم کھالے تو جائز ہوگا ۔ نہیں ایسا نہیں ہے، بلکہ یہاں پر ذکر کرنے کا مقصود صرف اس وقت کی غلاظت اور شدت بیان کرنا ہے ۔ اور یہاں پر ذکر نے سے اور اوقات میں قسم کھانے کی غلاظت کی نفی نہیں کرتا۔ ہاں البتہ جن جن اوقات میں انسان کو قسم کھانے میں تدبر و تامل کرنا چاہیے اور جن اوقات میں انسان کو سچ کہنا اور جھوٹ سے بچنا چاہیے ، ان میں سے سب سے زیادہ شدت اور غلاظت والا وقت یہ ہے ۔

  لہذا قسم کھانے کو اس وقت کے ساتھ تخصیص کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ یہ قسم کھانے میں شدت اور تغلیظ کا وقت ہے ۔ نہ کہ باقی اوقات میں سامان فروخت کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھانے کی اجازت ہے۔  کیونکہ حدیث میں ہے: (جس شخص نے صبر والی قسم کھالی تاکہ کسی مسلمان کا مال ناجائز کھا سکے تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا اللہ تعالی اس پر غصہ ہوگا) {بخاری: 4549، مسلم: 138} تو اس حدیث میں جھوٹی قسم کی حرمت کو عصر کے بعد کے سا تھ یا کسی اور وقت کے ساتھ مقید نہیں کیا ۔ کسی قت کے ساتھ مقید ہی نہیں کیا، بلکہ  بذات خود حرمت کو اس فعل کہ ساتھ مقید کیا ۔

 فرمایا: یا رسول اللہ اگرچہ مسواک کی ٹہنی ہو؟ یعنی کہ اگرچہ یہ قسم مسواک کی ایک ٹہنی پر ہی کیوں نہ ہو؟ یعنی مسواک جس کی کوئی قیمت نہیں ، اور اسی لیے انہوں مسواک ذکر کیا جبکہ یہ بات اس زمانہ کی ہے کہ جس وقت مسواک بکتا ہی نہیں تھا ، اور مسواک کہی سے بھی مفت کا حاصل ہو سکتا تھا ، فرمایا:  اگرچہ مسواک کی ایک ٹہنی ہو۔ {مسلم: 137}۔

تو ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ اگرچہ کوئی چھوٹی سی بے وقعت چیز ہو؟ تو حضور نے فرمایا: اگرچہ مسواک کی ایک چڑی ہو۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لوگوں کا مال ناجائز کھانے کے لیے قسم کھانا کتنا خطرناک ہے۔ اور جھوٹی قسم کی نحوست جھوٹی قسم کھانے والے تک ضرور پہنچتی ہے ، یہاں تک کہ اہل جاہلیت بھی جھوٹی غلط قسم کے برے انجام کے ڈر سے اس سے بچا کرتے ، اور یقینا اللہ تعالی جھوٹی قسم کھانے والوں پر اپنا غضب اورعذاب بہت جلد نازل کرتا ہے


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں