×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.

وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.

ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر

على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004

من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا 

بارك الله فيكم

إدارة موقع أ.د خالد المصلح

/ / عورت کا گھر سے باہر کپڑے اتارنے کا حکم

مشاركة هذه الفقرة WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

جناب من السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا میرے لئے اپنی خالہ وغیرہ کے گھر میں نہانا جائز ہے؟ خلع المرأة ثيابها خارج بيتها

المشاهدات:2593

جناب من السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا میرے لئے اپنی خالہ وغیرہ کے گھر میں نہانا جائز ہے؟

خلع المرأة ثيابها خارج بيتها

الجواب

حمدوثناء کے بعد۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

ابوداؤد [۴۰۱۰]، ترمذی [۲۸۰۳] اور ابن ماجہ [۳۷۵۰] نے ابو الملیح کے طریق سے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جو بھی عورت اپنے خاوند کے گھر کے علاوہ کسی اور جگہ کپڑے اتارتی ہے تو وہ اپنے اور اپنے رب کے درمیان پردہ چاک کرتی ہے‘‘۔

امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن ہے اور امام شوکانی اس کے اسناد کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں اس حدیث کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔

اہل علم فرماتے ہیں کہ آپ کا عورت کے بارے میں یہ قول مبالغہ پر مبنی ہے تاکہ وہ اپنے پردہ میں حد درجہ احتیاط کرے ، اور اس بات سے بچے کہ خود بھی فتنہ میں مبتلا ہو اور کسی اور کو بھی مبتلا کرے ، اور یہ تب ہے کہ جب اس کا کپڑے اتارنا کسی ایسے شخص کے سامنے ہو جو اس کے لئے غیر محرم ہو یعنی یہ حکم مطلقا نہیں ہے اگر فتنہ سے امن میں ہو تو پھر اس میں جواز ہے۔

اہل علم نے اس مسئلہ کو عورتوں کے حمامات میں داخل ہونے میں ذکر کیا ہے ، اور پہلے زمانہ میں یہ غسل کی جگہیں ہوتی تھیں ، جو آج کل ساونا کے نام سے پہچانی جاتی ہیں ، ان حضرات کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ فتنہ فساد کا سبب بنتا ہو ، اور جس نے مطلقا حمام میں دخول کی اجازت دی ہے تو اس نے امن کی شرط لگائی ہے جب وہ فتنہ سے مامون ہو ، اور جس نے جسم ظاہر کرنے کی اجازت دی ہے تو وہ اجازت بوقتِ ضرورت ہے یعنی ضرورت کے وقت اس کی اجازت ہے اور اگر ضرورت نہ ہو تو پھر اس کی اجازت نہیں ہے ۔

بعض علماء نے اس اختلاف کو حمامات کے علاوہ بھی رد کیا ہے ، فروع [۱/۲۰۷] میں لکھا ہے: ’’عورت کی طرف یہ حکم متوجہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں رات گزارے‘‘۔

جہاں تک مجھے دکھائی دیتا ہے تو اس حکم کا تعلق کسی خاص متعین جگہ سے نہیں ہے بلکہ جہاں بھی ستر کھلنے کا اندیشہ ہو تو اس کی ممانعت ہوگی لیکن جہاں وہ مامون ہوگی تو اس صورت میں اس کو اجازت ہوگی۔  واللہ أعلم۔

آپ کا بھائی/

أ.د.خالد المصلح

   18/ 10/ 1427 هـ


المادة السابقة

الاكثر مشاهدة

1. جماع الزوجة في الحمام ( عدد المشاهدات127616 )
6. مداعبة أرداف الزوجة ( عدد المشاهدات62694 )
9. حكم قراءة مواضيع جنسية ( عدد المشاهدات59310 )
11. حکم نزدیکی با همسر از راه مقعد؛ ( عدد المشاهدات55713 )
12. لذت جویی از باسن همسر؛ ( عدد المشاهدات55184 )
13. ما الفرق بين محرَّم ولا يجوز؟ ( عدد المشاهدات52072 )
14. الزواج من متحول جنسيًّا ( عدد المشاهدات50037 )
15. حكم استعمال الفكس للصائم ( عدد المشاهدات45046 )

مواد تم زيارتها

التعليقات


×

هل ترغب فعلا بحذف المواد التي تمت زيارتها ؟؟

نعم؛ حذف