حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:
جہاں تک آپ کا اس گریجویشن ڈریس اور کیپ کے پہننے کا سوال ہے تو میں اس کے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ اس لباس کے پہننے کے حکم میں اہل علم کا اختلاف ہے جن میں اکثر علماء کے نزدیک اس کا پہننا حرام ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ کافروں کا لباس ہے جس کے استعمال سے ان نصوصِ منہیہ میں داخل ہوگا جن میں کافروں کے چال ڈھال اور طور طریقے اپنانے سے منع کیا گیا ہے ، جیسا کہ امام احمد نے جید سند کے ساتھ عبداللہ بن مبارک سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا‘‘۔ اور بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ یہ عیسائی پادریوں کا لباس ہے اس طرح اس لباس سے وہ دین سے دور ہوجائے گا کہ یہ یہود و نصاریٰ کے عبادت گزاروں کا یونیفارم ہے ۔
علماء کی دوسری جماعت کے نزدیک اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں اس لئے کہ یہ ایسا لباس نہیں رہا جس کے ساتھ صرف کفار خاص ہیں کیونکہ یہ ایک اکیڈمک اورعالمی یونیفارم بن گیا ہے جس میں قومی جنسیت ، دین اور ملک کا کوئی امتیاز نہیں ، اور اس طرح کے یونیفارم پہننے سے اور لوگوں میں عمومیت کی وجہ سے مشابہت نہیں ہوتی اور اس لئے بھی کہ کافر اس یونیفارم سے مسلمان سے جدا نہیں ہے ۔
باقی رہی یہ بات کہ یہ ایک عبادتی لباس ہے تو اس کے بارے میں مجھے اپنی بھرپور کوشش کے باوجود بھی کوئی مستند روایت نہیں ملی ۔
اسی طرح کا قول کسی اور کا بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ یہ یونیفارم اصل میں اندلس کی اسلامی یونیورسٹیوں میں استعمال کیا جاتا تھا ، مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے کہ یہ کافروں کا یونیفارم ہے اور اس کا کفار کی عبادتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے اس کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ چیزوں کے استعمال میں جب تک ممانعت کی کوئی صراحتاََ دلیل نہ ہو تو اس کی اصل حلّت ہی ہے ، لیکن اس کے باوجود میرے نزدیک طلباء پر اس قسم کے یونیفارم پہننے کو لازم نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ اس کے بارے میں پیچھے علماء کا اختلاف ہم ملاحظہ کرچکے ہیں کہ اکثر علماء کے نزدیک یہ حرام ہے ۔
باقی اللہ بہترجانتا ہے۔ اللہ ہم سب کو خیر کی توفیق دے۔
رکن مجلس افتاء شہر قصیم
أ.د خالد بن عبدالله المصلح
12 / 5 / 1436هـ