محترم جناب حضرت السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، بانڈز کا بازار میں فروخت کرنے میں اپ کیا فرماتے ہیں؟
التورُّق في الأسهم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
الأعضاء الكرام ! اكتمل اليوم نصاب استقبال الفتاوى.
وغدا إن شاء الله تعالى في تمام السادسة صباحا يتم استقبال الفتاوى الجديدة.
ويمكنكم البحث في قسم الفتوى عما تريد الجواب عنه أو الاتصال المباشر
على الشيخ أ.د خالد المصلح على هذا الرقم 00966505147004
من الساعة العاشرة صباحا إلى الواحدة ظهرا
بارك الله فيكم
إدارة موقع أ.د خالد المصلح
محترم جناب حضرت السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، بانڈز کا بازار میں فروخت کرنے میں اپ کیا فرماتے ہیں؟
التورُّق في الأسهم
الجواب
حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
اس مسئلہ کے بارے میں بہت زیادہ پوچھا جاتا ہے ، کہ ادمی بنک جاتا ہے اور بنک سے بازار میں فروخت کرنے کے لیے کچھ بانڈز خریدتا ہے، اور پھر اس کو فروخت کرنے س جو مال اسے ملتا ہے یہ اس سے منتفع ہوتا ہے ۔ اور یہ تین شرطوں کے ساتھ جائز ہے:
۱۔ کہ بنک بذات خود ان بانڈز کا مالک ہو ، پس اگر بوقت معاملہ بنک بانڈز کا مالک نہ ہو تو بنک غیر مملوکہ چیز کو فروخت کرنے والا ہوگا ، اور یہ جائز نہیں ہے ۔
۲۔ یہ بانڈز بھی جائز بانڈز ہو، جیسے کے سروسز والی کمپنیاں ہوتی ہے یا اسکے علاوہ اور کوئی ۔
۳۔ کہ خریدار اسے بنک کی جانب سے فروخت نہ کرے ، کیونکہ یہ عینہ ہے ۔ اور بنک کو اسے فروخت کرنے کے لیے وکیل بھی نہ بنائے۔ کیونکہ اگر بنک کو فروخت کرنے کے لیے وکیل بنائے گا تو یے ربا کا ایک حیلہ ہوجائے گا۔
پس اگر بانڈز فروخت کرتے وقت یہ تینوں شروط موجود ہو تو پھر یہ معاملہ جائز ہے ۔ واللہ اعلم۔
آپ کا بھائی/
أ.د.خالد المصلح
5 / 3 / 1430هـ