حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:
اس بیع میں کوئی حرج نہیں ۔ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے آیتِ بیع میں: ((اور اللہ نے بیع کو حلال فرمایا اور سود کو حرام کیا)) {البقرۃ: ۲۷۵}۔ اور بیع کا حلال ہونا یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہر قسم کے بیوع (خریدوفروخت) کے معاملات جائز ہے، جب تک اس کی حرمت میں کوئی واضح دلیل سامنے نہ آئے۔
اور ثمن میں تأخیر اور اس میں زیادتی کرنا اس تأخیر کے مقابلے میں ہے،اور یہ جملہ قرض کے معاملات میں سے ہے،اور یہ بھی معلوم ہے کہ حاضر ثمن کی قیمت مؤجل ثمن کے برابر نہیں۔ جیسا کہ سلَم بیعِ مؤجل کے برعکس ہوتا ہے، لیکن وہاں ثمن پہلے دیا جاتا ہے اور چیز بعد میں، اسی لئے یہ ثمن میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح ثمن میں تأخیر اور چیز کا پہلے حوالے کرنا یہ سبب ہے قیمت میں بڑھوتری کا۔ اور اسی پر جمہور علماء اور اہلِ تحقیق حضرات کا اتفاق ہے۔
اور جس نے اس معاملے کو حرام کہا ہے ان کے پاس نہ کوئی دلیل اور اصل نہیں، اور اقساط کی بیع کو حرام کرنا یہ دلیل ضعیف ہے